اس رکوع کو چھاپیں

سورة القیٰمة حاشیہ نمبر۱۳

اِس سے گمان ہوتا ہے ، اور بعض اکابر مفسرین نے بھی اِس گمان کا اظہار کیا ہے، کہ غالباً ابتدائی زمانےمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ وحی کے دوران ہی میں قرآن کی کسی آیت یا کسی لفظ یا کسی حکم کا مفہوم بھی جبریل علیہ السلام سے دریافت کر لیتے تھے، اس لیے حضور ؐ کو نہ صرف یہ ہدایات کی گئی  کہ جب وحی نازل ہو رہی ہو اس وقت آپ خاموشی سے اس کو سنیں، اور نہ صرف یہ  اطمینان دلایا گیا کہ اُس کا لفظ ٹھیک ٹھیک آپ کے حافظہ میں  محفوظ کر دیا جائے گا اور قرآن کو آپ ٹھیک اُسی طرح پڑھ سکیں گے جس طرح وہ نازل ہوا ہے۔ بلکہ ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور ہرارشاد کا منشا اور مدّعا بھی پُوری طرح آپ کو سمجھا دیا جائے گا۔
           یہ ایک بڑی اہم آیت ہے جس سے چند ایسی اصلی باتیں ثابت ہوتی ہیں جنہیں اگر آدمی اچھی طرح سمجھ لے تو اُن گمراہیوں سے بچ سکتا ہے جو پہلے بھی بعض لوگ پھیلاتے رہے ہیں اور آج پھیلا رہے ہیں۔
          اوّلاً، اِس سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپ کو ایسا علم دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے احکام و فرامین ، اُس کے اشارات، اُس کے الفاظ اور اس کی مخصوص اصطلاحا ت  کا جو مفہوم و مدعا حضورؐ  کو سمجھایا جاتا تھا وہ اگر قرآن ہی میں درج ہوتا تو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس کا مطلب سمجھا دینا یا اس کی تشریح کر دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے، کیونکہ وہ تو پھر قرآن ہی میں مل جاتا۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مطالبِ قرآن کی تفہیم و تشریح جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جاتی تھی وہ بہر حال الفاظِ قرآن کے ما سواتھی۔ یہ وحیِ خَفِی کا ایک اور ثبوت ہے جو ہمیں قرآن سے ملتا ہے (قرآن مجید سے اس کے مزید ثبوت ہم نے اپنی کتاب”سنّت کی آئینی حیثیت“میں صفحات۹۴۔۹۵۔ اور صفحات۱۱۸تا۱۲۵ میں پیش کر دیے ہیں)
          ثانیاً، قرآن کے مفہوم و مدعا اور اس کےا حکام کی یہ تشریح جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تھی آخر اِسی لیے تو بتائی گئی تھی کہ آپ اپنے قول اور عمل سے اُس کے مطابق لوگوں کو قرآن سمجھا ئیں اور اس کے احکام پر عمل کرنا سکھاَئیں۔ اگر یہ اُس کا مدعا نہ تھا اور یہ تشریح آپ کو صرف اس لیے بتائی گئی تھی کہ آپ اپنی ذات کی حد تک اس علم کو محدود رکھیں تو یہ ایک بے کار کام تھا، کیونکہ فرائض نبوت کی ادائیگی میں اِس سے کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی۔ اس لیے صرف ایک بیوقوف آدمی ہی یہ کہ سکتا ہے کہ تشریح علم سرے سے کوئی تشریعی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خود سورہ نحل آیت ۴۴ میں فرمایا ہے وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُمَیِّنَ لِلنّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ،”اور اے نبی ، یہ ذکر ہم نے تم پر اس لیے نزل کیا ہے تاکہ تم لوگّں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کر تے جا ؤ  جو اُن کے لیے اُتا ر ی گئی ہے“۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، النحل، حاشیہ۴۰۔اور قرآن میں چار جگہ اللہ تعالی ٰ نے صراحت فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف کتاب اللہ کی آیات سنا دینا ہی نہ تھا بلکہ اِس کتاب کی تعلیم دنیا بھی تھا۔(البقرہ، آیات ۱۲۹،۱۵۱۔آلِ عمران،۱۶۴۔الجمعہ،۲۔ ان سب آیات کی تشریح ہم”سنت کی آئینی حیثیت“میں صفجہ ۷۴سے ۷۷ تک تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں) اس کےبعد کوئی  ایسا آدمی جو قرآن کو مانتا ہو اس بات کو تسلیم کرنے سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ قرآن کی صحیح و مستند، بلکہ فی الحقیقت سرکاری تشریح صرف وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور عمل سے  فرمادی ہے، کیونکہ وہ آپ کی ذاتی تشریح نہیں ہے  بلکہ خود قرآن کے نازل کرنے والے خدا کی بتائی ہوئی تشریح ہے۔ اس کو چھوڑ کر  یا اُس سے ہٹ کر  جو شخص بھی قرآن کی کسی آیت یا اس کے کسی لفظ کا کوئی من مانا مفہوم بیا ن کرتا ہے وہ ایسی جسارت کرتا ہے جس کا ارتکاب کوئی صافِ ایمان آدمی نہیں کر سکتا ۔    
          ثالثاً، قرآن کا سر سری مطالعہ بھی اگر کسی شخس نے کیا ہو تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جنہیں ایک عربی داں آدمی محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر یہ نہیں جا ن سکتا کہ اُن کا حقیقی مدعا کیا ہے اور اُن میں جو حکم بیان کیا گیا ہے  اس پر کیسے عمل کیا جائے۔ مثال کے طور پر لفظ صلٰو ۃ ہی کو لے لیجیے۔ قرآن مجید میں ایمان  کے بعد اگر کسی عمل پر سب سے زیادہ زور دی گیا ہے تو وہ صلوٰۃ ہے۔ لیکن محض عربی لغت کی مدد سے کوئی شخص اس کا مفہوم تک متعیّن نہیں کر سکتا۔ قرآن میں اس کا ذکر بار بار دیکھ کر زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان کےاِس لفظ کو کسی خاص اصطلاحی معنی میں استعمال کیا گیا ہے، اور اس ے مراد غالباً کوئی خاص فعل کیا ہے اور کس طرح اسے ادا کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کے بھیجنے والے نے اپنی طرف سے ایک معلّم کو مقرر کر کے اپنی اِس اصطلاح کا مفہوم اُسے ٹھیک ٹھیک نہ بتا یا ہوتا اور صلوٰۃ کے حکم کی تعمیل کر نے کا  طریقہ پُوری وضاحت کے ساتھ اے نہ سکھا دیا ہوتا ، تو کیا صرف قرآن کو پڑھ  کر دینا میں کوئی دو مسلمان  بھی ایسے ہو سکتے تھے جو حکمِ صلوٰۃ پر عمل کرنے کی کسی ایک شکل پر متفق ہو جاتے؟ آج ڈیڑھ ہزار برس سے مسلمان جس طرح نماز کے حکم پر یکساں عمل کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہی تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف قرآن کے الفاظ ہی وحی نہیں فرمائے تھے بلکہ ان الفاظ کا مطلب بھی اپ کو پوری طرح سمجھادیا تھا، اور اسی مطلب کی تعلیم آپ اُن سب لوگوں کو دیتے چلے گئے جنہوں نے قرآن کو اللہ کی کتاب اور آپ کو اللہ کا رسول مان لیا۔

          رابعاً، قرآن کے الفاظ کی جو تشریح اللہ نے اپنے رسولؐ کو بتائی اور رسولؐ  نے اپنے قول اور عمل سے اس کی جو تعلیم امّت کو دی، اس کو جاننے کا ذریعہ ہمارے پاس حدیث و سنّت کے سوا اور  کوئی نہیں ہے۔ حدیث سے مراد وہ روایات ہیں جو حضورؐ کی قولی و عملی تعلیم سے مُسلم معاشرے کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں رائج ہوا ، جس کی تفصیلات معتبر روایتوں سے بھی بعد کی نسلوں کواگلی نسلوں سے ملیں، اور بعد کی نسلون نے اگلی نسلوں میں اس پر عملدرآمد ہوتے بھی دیکھا۔ اِس ذریعہ علم کو قبول کرنے سے جو شخس انکار کر تا ہے وہ گویا یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَا نَہٗ فرما کر قرآن کا مطلب اپنے رسول کو سمجھا دینے کی جو ذمّہ داری لی تھی۔ اسے پورا کرنے میں معاذ اللہ وہ ناکام ہو گیا، کیونکہ یہ ذمّہ داری محض رسولؐ کو ذاتی حیثیت سے مطلب سمجھا نے کے لیے نہیں لی گئی تھی، بلکہ اس غرض کے لیے ل؛ی گئی تھی کہ رسولؐ کے ذریعہ سے اُمّت کر کتابِ الہٰی کا مطلب سمجھا یا جائے، اور حدیث و سنّت کے ماخذِ قانون ہونے کا انکار کرتے ہی آپ سے آپ یہ لازم آجاتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ اِس ذمہ دار کو پُورا نہیں کر سکا ہے، اعاذنا اللہ من ذالک۔ اس کے جواب میں جو شخص یہ کہتا ہے کہ بہٹ سے لوگوں نے حدیثیں گھڑ بھی تو لی تھیں، اُس سےہم کہیں گے کہ حیدیثوں کا گھڑا جانا خود اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ آغازِ اسلام میں پُوری امّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال کو قانون کا درجہ دیتی تھی ، ورنہ آخر گمراہی پھیلانے والوں کو جھوٹی حیدثیں گھڑنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ جعل ساز لوگ وہی سکّے تو جعلی بناتے ہیں جن کا بازار میں چلن ہو۔ جن نوٹوں کی بازار میں کوئی قیمت نہ ہو انہیں کون بیوقوف جعلی طور پر چھاپےگا؟ پھر ایسی بات کہنے والوں کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ اِس امّت نے اول روز سے اِس بات کا اہتمام کیا تھا کہ جس ذات پاکؐ کے اقوال و افعال قانون کا درجہ رکھتے ہیں اس کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہونے پائے، اور جتنا جتنا غلط باتوں کے اُس ذات کی طرف منسوب ہونے کا خطرہ بڑھتا گیا اتنا ہی اِس امّت کے خیر خواہ اِس بات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کر تے چلے گئے کہ صحیح کو غلط سے ممیّز کیا جائے۔ صحیح و غلط روایات کی تمیز کا یہ علم ایک بڑا عظیم الشان علم ہے جو مسلمانوں کے سوا دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایجاد نہیں کیا ہے۔ سخت بد نصیب ہیں وہ لوگ جو اس علم کو حاصل کیے بغیر مغربی مستشرقین کے بہکائے میں آکر حدیث و سنت کو نا قابلِ اعتبار ٹھیراتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اپنی اِس جا ہلانہ جسارت سے وہ اسلام کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔