اس رکوع کو چھاپیں

سورة القیٰمة حاشیہ نمبر۲۵

یہ حیات بعدِ موت کے امکان کی دلیل ہے۔ جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ابتدائی نطفے سے تخلیق ک آغاز کر کے پُور اانسان بنا دینے تک کا سارا فعل اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اورحکمت کا کرشمہ ہے ان کے لیے تو فی الحقیقت اس دلیل کا کوئی جواب ہے ہی نہیں، کیونکہ وہ خواہ کتنی ہی ڈِھٹائی برتیں، ان کی عقل تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتی کہ جو خدا اس طرح انسان کو دنیا میں پیدا کرتا ہے وہ دوبارہ بھی اسی انسان کو وجوہد میں لے آنے پر  قادر ہے۔ رہے وہ لوگ جو اس صریح حکیمانہ فعل کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، وہ اگر ہٹ دھرمی پر تُلے ہوئے نہیں ہیں تو آخر ان  کے پاس اس بات کی کیا توجیہ ہے کہ آغازِ آفرنیش سے آج تک دنیا کے ہر حصے اور ہر قوم میں کس طرح ایک ہی نوعیت کے تخلیقی فعل کے نتیجے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی پیدائش مسلسل اِس تناسب سے ہوتی چلی جا رہی ہے کہ کہیں کسی زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی انسانی آبادی میں صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہی پیدا ہوتی چلی جائیں اور آئندہ اُس کی نسل چلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے؟ کیا یہ بھی اتفاقاً ہی ہوئے چلا جا رہا ہے؟ اتنا بڑا دعویٰ کر بیٹھے کہ لندن اور نیوریاک ، ماسکو اور پیکنگ اتفاقاً آپ سے آپ بن گئے ہیں(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الروم، حواشی۲۷ تا ۳۰۔جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ ۷۷)۔

          متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کو پڑھتے تھے تو اللہ تعالیٰ کے اِس سوال کے جواب میں کبھی بَلیٰ (کیو ں نہیں)، کبھی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ فبلی (پاک ہے تیری ذات، خداوند، کیوں نہیں) اور کبھی سُبْحَانَکَ وَبَلیٰ فرمایا کرتے تھے (ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو دواؤد)۔ ابو داؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب تم سورہ تین میں آیت اَلَیْسَ اللہُ بِاَحْکَمِ الْحَاکِمِیْن (کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟) پڑھو تو کہو بَلیٰ وَاَنَا عَلیٰ ذَالِکَ مِنَ الشَّا ھِدِیْنَ (کیوں نہیں ، میں اِس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں)۔ اور جب سورہ قیامہ کی یہ آیت پڑھو تو کہو بَلیٰ۔ اور جب سورہ مرسَلات کی آیت فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۢ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ (اس قرآن کے بعد یہ لوگ اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟) پڑھو تو کہو اٰمَنَّا بِا للہِ ( ہم اللہ پر ایمان لائے)۔ اسی مضمون کی روایات امام احمد، ترمذی، ابن المُنذر، ابن مردُوْیہ، بَیْقَہی اور حاکم نے بھی نقل کی ہیں۔