اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الدھر حاشیہ نمبر۱۰

نظر پوری کرنے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب کیا گیا ہوا سے وہ پُورا کر ے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے خٔد اپنے اوپر واجب کر لیا ہو۔ یا بالفاظِ دیگر جس کام کے کرنے کا  اس نے عہد کیا ہو، اُسے وہ پُورا کرے۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب ہو، خواہ وہ اُس پر واجب کیا گیا ہو یا اس نے خود اپنے اوپر واجب کر لیا ہو، اسے وہ پُورا کرے۔ اِن تینوں مفہومات میں سے زیادہ معروف مفہوم دوسرا ہے اور عام طور پر لفظ نذر سے وہی مراد لیا جاتا ہے۔ بہر حال یہاں اُن لوگوں کی تعریف یا تو اس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ واجبات کو  پُورا کرتے ہیں، یا اِس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ ایسے نیک لوگ ہیں کہ جو خیر اور بھلائی کے کام اللہ نے ان پر واجب نہیں کیے ہیں ان کو بھی انجام دینے کا جب وہ اللہ سے عہد کر لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں، کجا کہ اُن واجبات کو ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کریں جو اللہ نے ان پر عائد فرمائے ہیں۔
جہاں تک نذر کے احکام کا تعلق ہے ، اُن کو مختصر طور پر ہم تفہیم القرآن ، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ۳۱۰ میں بیان کر چکے ہیں ۔ لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اُن کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا جائےتا کہ لوگ نذر کے معاملہ میں جو غلطیاں کرتے ہیں یا جو غلط فہمیاں لوگوں میں پائی جاتی ہیں ان سے بچ سکیں اور نذر کے صحیح قواعد سے واقف ہو جائیں۔
(۱)      فقہاء نے نذر کی چار قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک آدمی اللہ سے یہ عہد کرے کہ وہ اُس کی رضا کی خاطر فلاں نیک کام کرے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ اِس بات کی نذرمانے کہ اگر اللہ نے میری فلاں حاجت پوری کر دی تو میں شُکرانے میں فلاں نیک کام کر دوں گا، اِن دونوں قسم کی نذروں  کو فقہاء کی اصلطلاح میں نذر تَبَرُّر (نیکی کی نذر) کہتے ہیں اور اس پر اتفاق ہے کہ اسے پُورا کر نا واجب ہے۔ تیسرے یہ کہ آدمی کوئی ناجائز کام کرنے  یا کوئی واجب کام نہ کرنے کا عہد کر لے۔ چوتھے یہ کہ آدمی کوئی مُباح کام کرنے کو اپنے اوپر لازم کرلے، یا کوئی مستحب کام نہ کرنے کا یا کوئی خلافِ اَولٰی کام کرنے کا عہد کرلے۔ ان دونوں قسموں کی نذروں کو فقہاء کی اصطلاح میں نذر لَجاج  (جہالت اور جھگڑالو پن اور ضِد کی نذر) کہتے ہیں۔ ان میں تیسری قسم کی نذر کے متعلق اتفاق ہے کہ وہ منعقد ہی نہیں ہوتی۔ اور چوتھی قسم کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اسے پُورا کرنا چاہیے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ قسم توڑنے کا کفّارہ ادا کر دینا  چاہیے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ آدمی کوا ختیار ہے ، خواہ نذر پوری کردے ، یا کفارہ ادا کر دے۔ شافعیوں اور مالکیوں کے نزدیک یہ نذر بھی سرے سے منعقد نہیں ہوتی۔ اور حنفیوں کے نزدیک دونوں قسموں کی نذروں پر کفارہ لازم آتا ہے۔(عمدہ القاری)۔
(۲)      متعدد احادیث سے معلو م ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نذر ماننے سے منع فرمایا ہے جو یہ سمجھتے ہوئے مانی جائے کہ اُس سے تقدیر بدل جائے گی، یا جس میں کوئی نیک کام اللہ کی رضا کے لیےبطور ِ شکر کرنے کے بجائے آدمی اللہ تعالیٰ کو بطورِ معاوضہ یہ پیشکش کرے کہ آپ میرا یہ کام کر دیں تو میں آپ کے لیے فلاں نیک کام کر دوں گا۔ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ اَخَذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ینھیٰ عن النذر و یقول انہٗ لا یردّ شیئاً و انما یُسْتَخْرَجُ بہ من البخیل۔” رسوال اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ نذر ماننے سے منع کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ وہ کسی ہونے والی چیز کو پھیر نہیں سکتی، البتہ اُس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے۔“( مُسلم۔ابو داؤد)۔ حدیث کے آخری فقرے کا مطلب  یہ ہے کہ بخیل یُوں تو راہِ خدا میں مال نکالنے والا نہ تھا، نذر کے ذریعہ سے اِس لالچ میں وہ کچھ خیرات کر دیتا ہے کہ شاید یہ معاوضہ قبول کر کے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تقدیر بدل دے۔ دوسری روایت حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے یہ ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، النّذرُ لا یُقَدِّ مُ شیئاً ولا یُؤَخِّرُہٗ و انما یُسْتَخْرَجُ بہٖ من البخیل۔”نذر نہ کوئی کام پہلے کرا سکتی ہے، نہ کسی ہوتے کام میں  تاخیر کر اسکتی ہے۔ البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل کے ہاتھ سے نکلوا لیا جاتا ہے“(بخاری ومسلم)۔ ایک اور روایت میں وہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا انہ لا یاتی بخیر و انما یستخرج بہ من البخیل” اس سے کوئی کام بنتا نہیں ہے، البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے“(بخاری ومسلم)۔ تقریباً اسی مضمون کی متعدد روایات مُسلم نے حضرت ابو ہُریرہ سے نقل کی ہیں، اور ایک روایت بخاری و مسلم دونوں نے نقل کی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا ان النذر لا یقرِّب من ابن اٰدم َ شیئاً لم یکن اللہ  قدرہ لہٗ ولٰکِن النذر یوافقُ القدر فُیخرجُ بذالک من البخیل مالم یکن البخیل یرید ان یُّخْرِجَ۔”درحقیقت نذر ابن آدم کو کوئی ایسی چیز نہیں دلواسکتی جو اللہ نے اس کے لیے مقدَّر نہ فرمائی ہو، لیکن نذر ہوتی تقدیر کے مطابق ہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تقدیر الہٰی وہ چیز بخیل کے پاس سے نکال لاتی ہے جسے وہ کسی اور طرح نکالنے والا نہ تھا“۔ اسی مضمون پر مزید روشنی حضرت عبداللہ بن عَمْرو بن عاص کی اس روایت سے پڑتی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا انما النذر ما ابتُغییَ بہٖ وجہُ اللہ۔ ”اصل نزر تو وہ ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو“۔(طَحاوِی)۔
(۳)     نذر کے معاملہ میں ایک اور قاعدہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ صرف وہ نذر پُوری کرنی چاہیے جو اللہ کی اطاعت میں ہو۔ اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر ہر گز پُوری نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایسی چیز میں کوئی نذر نہیں ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو، یا ایسے کام میں کوئی نذر نہیں ہے جو انسان کے بس میں نہ ہو۔حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا من نذر ان یطیع اللہ فَلْیُطِعْہُ ومن نذر ان یعص اللہ فلا یعصِہٖ۔”جس نے یہ نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اس کی اطاعت کرنی چاہیے، اور جس نے یہ نذر مانی  ہو کہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو اسے نافرمانی نہیں کرنی چاہیے“۔(بخاری ، ابو داؤد، ترمذی، نسائی،ابن ماجہ، طحاوی)۔ ثابن بن ضَحّاک کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا وفاء لنذرِ فی معصیۃ اللہ ولا فیما لا یملک ابن اٰدم۔” اللہ کی نافرمانی میں کسی نذر کے پُور کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، نہ کسی ایسی چیز میں جو آدمی کی ملکیت میں نہ ہو“(ابو داؤد)۔ مسلم نے اسی مضمون  کی روایت حضرت عمران بن حُصین سے نقل کی ہے۔ اور ابو داؤد میں حضرت عبد اللہ بن عَمْروبن عاص کی روایت اس سے زیادہ مفصل ہے جس میں وہ حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ لا نذر و لایمین فی ما لا یملک ابن اٰدم، ولا فی معصیۃ اللہ، ولا فی قطیعۃ رحم” کوئی نذر او کوئی قسم کسی ایسے کام میں نہیں ہے جو آدمی کے بس میں نہ ہو، یا اللہ کی نافرمانی میں ہو، یا قطع رحمی کے لیےہو۔“
(۴)     جس کام میں بجائے خود نیکی نہیں ہے اور آدمی نے خواہ مخواہ کسی فضول کام، یا نا قبلِ برداشت مشقت یا محض تعذیبِ نفس کو نیکی سمجھ کر اپنے اوپر لازم کر لیا ہو اُس کی نذر پُوری نہیں کرنی چاہیے۔ اس معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بالکل واضح ہیں ، حضر ت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورؐ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک صاحب دھوپ میں کھڑے ہیں۔ آپ نے پوچھا  یہ کون ہیں اور کیسے کھڑے ہیں؟ عرض کیا گیا یہ ابو اسرائیل ہیں، انہوں نے نذر مانی ہے کہ کھڑے رہیں گے ، بیٹھیں گے نہیں، نہ سایہ کریں گے، نہ کسی سے بات کریں گے ، اور روزہ رکھیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا مُرُوْہُ فلیکلّم وَلْیَسْتَظِل وَلْیَقْعُدْ، وَلْیُتِمَّ صوم۔” ان سے کہو بات کریں، سایہ میں آئیں، بیٹھیں ، البتہ روزہ پُورا کریں“(بخاری، ابوداؤدب ابن ماجہ، مُؤطَا)۔ حضرت عُقْبہ بن عامر جُہنَیِ کہتے ہیں کہ میری بہن ننگے پاؤں پیدل حج کرنے کی نذر مانی اور یہ نذر بھی مانی کہ اس سفر میں سر پر کپڑا بھی نہ ڈالیں گی۔ حضورؐ نے فرمایا اُس سے کہو کہ سواری پر جائے اور سر ڈھانکے(ابوداؤد۔مسلم نے اِس مضمون کی متعدد روایات سے نقل کی ہیں جن میں کچھ لفظی اختلاف ہے)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے عُقْبہ بن عامی کی بہن کا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضورؐ کے جو الفاظ نقل کیے ہیں وہ یہ ہیں:اِنَّ اللہَ لَغنیٌّ عن نذرھا، مُرْھا فَلْتَرْکَبْ۔”اللہ کو اس کی اِس نذر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے کہو کہ سواری پر جائے“(ابو داؤد)۔ ایک ور روایت  میں حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا، میری بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی ہے۔ حضور ؐ نے فرمایا انّ اللہ لا یصنع بشقاء اختک شیئاً فلتحُجَّ رَا کبۃ۔ ”تیری بہن کے مشقت میں  پڑنے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں پڑی ہے ۔ اسے سواری پر حج کرنا چاہیے“۔(ابو داؤد)۔ حضرت اَنَس بن مالک کی روایت ہے کہ حضورؐ نے (غالباً سفر حج) میں دیکھا کہ ایک بڑے میاں کو ان کے دو بیٹے سنبھالے لیے چل رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ کیا معاملہ  ہے؟ عرض کیا گیا انہوں نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا اِنَّ اللہَ لغنیٌ عن تعذیب ھٰذا نفسہٗ و امرہٗ ان یرکَبَ۔ ”اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے کہ یہ شخص اپنے نفس  کو عذاب میں ڈالے“۔ پھر آپ نے اسے حکم دیا سوار ہو(بخاری،مسلم،ابوداؤد۔مسلم میں اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہؓ سے بھی مر وی ہے)۔
(۵)      اگر کسی نذر کو پُورا کرنا عملاً ممکن نہ ہوتو اسے کسی دوسری صورت میں   پُورا کیا جا سکتا ہے۔ حضرت جابر بن عبدا للہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز ایک شخص نے اُٹھ کر عرض کیا ، یا رسول اللہ ، میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے مکہ آپ کے ہاتھ پر فتح کر دیا تو میں بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ حضورؐ نے فرمایا یہیں پڑھ لے اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے  پھر وہی جواب دیا۔ اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے فرمایا شَأ نک اذًا،”اچھا تو تیری مرضی“۔ دوسری ایک روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا۔ والذی بعث محمدًا بالْحق، لوصلَّیت ھٰھنا لاجزأ عنک صلوٰ ۃً فی بیت المقدس”قسم ہے اُس ذات کی جس نے محمدؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، اگر تو یہیں نماز پڑھ لے تو بیت المقدس میں نماز پڑھنے کے بدلے یہ تیرے لیے کافی ہو گی“(ابو داؤد)۔
(۶)      اگر کسی نے اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی نذر مان لی ہو تو اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام مالکؓ کہتے ہیں کہ اسے ایک تہائی مال دے دینا چاہیے، اور مالکیہ میں سے سَحْنُون کا قول ہے کہ اسے اتنا مال دے دینا چاہیے جسے دینے کے بعد وہ تکلیف میں  نہ پڑ جائے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر یہ نذر تُبرُّر کی نوعیت کی ہو تو اسے سارا مال دے دینا چاہیے، اور اگر یہ نذرِ لَجاج ہو تو اُسے اختیار ہے کہ نذر پُوری کرے یا قسم کا کفارہ ادا کردے۔ امام ابو حنفیہ کہتےہیں کہ  اسے اپنا وہ سب مال دے دنیا چاہیے جس میں زکوٰۃ عائد ہوتی ہو، لیکن جس مال میں زکوٰۃ نہیں ہے، مثلاً مکان یا ایسی ہی دوسری  اَملاک، اس پر اس نذر کا اطلاق نہ ہو گا۔ حنفیہ میں سے امام زُفَر کا قول ہے کہ اپنے اہل وعیال کے لیے دو مہینے کا نفقہ رکھ کر باقی سب صدقہ کر دے (عمدۃ القاری۔ شرح مؤطاء از شاہ ولی اللہ صاحب) ۔ حدیث میں اس مسئلے کے متعلق جو روایات آئی ہیں وہ یہ ہیں: حضرت کعبؓ بن مالک کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ جانے کی وجہ سے جو عتاب مجھ پر ہوا تھا اس کی جب معافی مل گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عر ض کیا کہ میری توبہ میں یہ بات بھی شامل تھی کہ میں اپنے سارے مال سے دست بردار ہو کر اسے اللہ اور رسول کی راہ میں صدقہ کر دُوں گا۔ حضورؐ نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرو۔ میں نے عرض کیا، پھر آدھا مال؟ فرمایا، نہیں۔ میں نے عرض کیا، پھر ایک تہائی؟ فرمایا ہاں(ابو داؤد)۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا تم اپنا کچھ مال اپنے لیے روک رکھو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے(بخاری)۔ امام زُہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابو لُبابہؓ  نے (جن پر اِسی غذوہ تبوک کے معاملہ میں عتاب ہوا تھا، حضورؐ سے عرض کیا، میں اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کے طور پر اپنے سارے مال سے دست بر دار ہوتا ہوں۔ حضورؐ نے جواب دیا تمہارے لیے اُس میں صرف ایک تہائی دے دینا کافی ہے(مؤطّا)۔
(۷)     اسلام قبول کرنے سےپہلے اگر کسی شخص نے کسی نیک کام کی نذر مانی ہو تو کیا اسلام قُبول کرنے کے بعد اسے پورا کیا جائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فتوٰی اس بارے میں یہ ہے کہ اسے پُورا کیا جائے۔ بخاری، ابو داؤد اور طَحا وی میں حضرت عمرؓ کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نذرمانی تھی کہ ایک رات (اور بر دیتِ بعض ایک دن) مسجد حرام میں اعتکاف کریں گے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے حضورؐ سے فتوٰی پوچھا تو آپ نے فرمایا اوف ِبنذرک”اپنی نذر پوری کرو“۔ بعض فقہاء نے حضورؐ کے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ ایسا کر نا واجب ہے، اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ یہ مُستحب  ہے۔
(۸)     میت کے ذمہ اگر کوئی نذر رہ گئی ہو تو اسے پُورا کرنا وارثوں پر واجب ہے یا نہیں ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور اور ظاہر یہ کہتے ہیں کہ میّت کے ذمّہ اگر روزے یا نماز کی نذر رہ گئی ہو تو وارثوں پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ نذر اگر بدنی عبادت(نماز یا روزہ) کی ہو تو وارثوں پر اُس کا پُورا کرنا واجب نہیں ہے، اور اگر مالی عبادت کی ہو اور مرنےوالے نے اپنے وارثوں کو اُسے پورا کرنے کی وصیت نہ کی ہوتو اسے بھی پورا کرنا واجب نہیں ، البتہ اگر اس  نے وصیّت کی ہو تو اس کے بعد  تر کے میں سے ایک تہائی کی حد تک نذر پُوری کرنی واجب ہوگی۔ مالکیہ کا مذہب بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ نذر اگر غیر مالی عبادت کی ہو، یا مالی عبادت کی ہو اور میت نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا ہو، تو اسے پُورا کرنا  وارثوں پر واجب نہیں ہے، اور اگر میت نے ترکہ چھوڑا  ہو تو وارثوں پر مالی عبادت کی نذر پُوری کرنا واجب ہے، خواہ اس نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو(شرح مُسلم لِنَّوَوِی)۔ بذل المجہود (شرح ابی داؤد)۔ حدیث میں اس مسئلے کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عُبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوٰی پوُچھا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کے ذمّہ ایک نذر تھی جو انہوں نے پُوری نہیں کی تھی۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ تم اس کی طرف سے پُوری کر دو(ابو داؤد۔ مُسلم)۔ دوسری روایت ابن عباس سے یہ ہے کہ ایک عورت نے بحری سفر کیا اور نذر مانی کہ اگر میں زندہ سلامت واپس گھر پہنچ گئی تو ایک مہینے کے روزے رکھوں گی۔ واپس آنے کے بعد اس کا انتقال ہو گا اور وہ مر گئی۔ اس کی بہن یا بیٹی نے آکر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پُوچھا اور آپ ؐ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے تُو روزے رکھ لے(ابو داؤد)۔ ایسی ہی ایک روایت ابو داؤد نے حضرت بُریدہ نے نقل کی ہے کہ ایک عورت نے حضورؐ سے اسی طرح کا مسئلہ پوچھآ اور آپ نے اسے وہی جواب دیا جو اوپر مذکور ہوا ہے۔ ان روایات میں چونکہ یہ بات صاف نہیں ہے کہ حضورؐ کے یہ ارشادات و جواب کے معنی میں تھے یا استحباب کے معنی میں، اور حضرت سعد بن عُبادہ کی والدہ کی نذر  کے معاملہ میں یہ واضح نہیں ہے کہ وہ مالی عبادت کے بارے میں تھی یا بدنی عبادت کے بارے میں، اسی بنا پر فقہاء کے درمیان اِس مسئلے میں اختلافات ہوئے ہیں۔

(۹)      غلط اور نا جائز نوعیت کی نذر  کے معاملہ میں یہ بات تو صاف ہے کہ اسے پُورا نہیں کرنا چاہیے ۔ البتہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ اس پر کفارہ لازم آتا ہے یا نہیں ۔ اس مسئلے میں چونکہ روایات مختلف ہیں اس لیے فقہاء کے مسالک بھی مختلف ہیں۔ ایک قسم کی روایات میں یہ آیا  ہے کہ حضور ؐ نے ایسی صورت میں کفارہ کا حکم دیا ہے مثلاً، حضرت عائشہؓ کی یہ روایت کہ حضورؐ نے فرمایا لانذر جی معصیۃ وکفارتُہٗ کفّارۃ یمین، ”معصیت میں کوئی نذر نہیں ہے اور اس کاکفارہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے“(ابو داؤد)۔ عُقبہ بن عامر جُہَنی کی بہن کے معاملہ میں (جس کا ذکر اُوپر نمبر ۴ میں گزر چکا ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ اپنی نذر توڑ دیں اور تین دن کے روزے رکھیں(مسلم۔ ابوداؤد)۔ ایک اور عورت کے معاملہ میں بھی جس نےپیدل حج کی نذر مانی تھی، حضورؐ نے حکم دیا کہ وہ سواری پر حج کے لیے جائے اور قسم کا کفارہ ادا کر دے(ابو داؤد)۔ ابن عباس کی روایت  ہے کہ حضورؐ نے فرمایا من نذر نذرًا لم یسمہ فکفارتہ کفارۃ یمین، ومن نذر نذرا فی معصیۃ فکفارتۃ کفارۃ یمین، ومن نذر نذرًا لا یطیقہ فکفارتۃ کفّارۃ یمین، ومن نذر نذرًا اطاقہ فلیفِ بِہٖ۔”جس نے ایک نذر مان لی اور اس بات کا تعین نہ کیا کہ کس بات کی نذر مانی ہے وہ قسم کا کفارہ دے ۔ اور جس نے ایسی نذر مانی جسے وہ  پورا کرنے کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو وہ قسم کا کفارہ دے۔ اور جس نے ایسی نذر مانی جسے وہ پُورا کر سکتا ہو  وہ اسے پورا کرے“( ابو داؤد)۔ دوسری طرف وہ احادیث ہیں جن سے معلو م ہوتا ہے کہ اِس صورت میں کفارہ نہیں  ہے۔ اوپر نمبر ۴ میں جن صاحب کا ذکر آیا ہے کہ انہوں نے دھوپ میں کھڑے رہنے اور کسی سے بات نہ کرنے کی نذر مانی تھی، اُن کا قصّہ نقل کر کے امام مالکؒ نے مؤطّا میں لکھا ہے کہ مجھے کسی ذریعہ سے بھی یہ معلوم نہیں ہوا کہ حضورؐ نے ان کو نذر توڑنے کا حکم دینے کے ساتھ یہ بھی حکم دیا ہو کہ وہ کفارہ ادا کریں۔ حضرت عبد اللہ بن عَمْر وبن عاص کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من حلف علیٰ یمین فراٰی غیرھا خیرًا منھا فلید عھا ولیاتِ الذی ھو خیرٌ فان ترکھا کفارتھا، ”جس  نے کسی بات کی قسم کھائی ہوا ور بعد میں وہ دیکھے کہ اس سے بہتر بات دوسری ہے تو وہ اسے چھوڑ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہو اور اسے چھوڑدینا ہی اس کا کفارہ ہے“(ابو داؤ بیقہی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اور حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ روایت کہ ”جو کام بہتر ہے وہ کرے اور یہی اس کا کفارہ ہے“ ثابت نہیں ہے)۔ امام نَودِی اِن احادیث پر بحث کرتے ہوئے شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ امام مالکؒ، شافعیؒ،ابوحنفیہؒ،داؤد ظاہری اور جمبہور علماء کہتے ہیں کہ معصیت کی نذ ر باطل ہے اور اسے پُورا نہ کرنے پر کفارہ لازم نہیں آتا۔ اور امام احمد کہتے ہیں کہ کفارہ لازم آتا ہے۔