اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الدھر حاشیہ نمبر۱۶

یہاں صبر بڑے وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے، بلکہ درحقیقت صالح اہلِ ایمان کی پُوری دنیوی زندگی ہی کو صبر کی زندگی قرار دیا گیا ہے۔ ہوش سنبھالنے یا ایمان لانے کے بعد سے مرتے دم تک کسی شخص کا اپنی ناجا ئز خواہشوں کو دبانا، اللہ باندھی ہوئی حدوں کی پانبدی کرنا ، اللہ کے عائد کیے ہوئے فرائض کو بجا لانا، اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا وقت، اپنا مال،اپنی محنتیں، اپنی قوتیں اور قابلیتیں، حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک قربان کر دینا، ہر اُس لالچ اور ترغیب کو ٹھکرادینا جو اللہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے سامنے آئے، ہر اُس خطرے اور تکلیف کو برداشت کر لینا جو راہِ راست پر چلنے میں پیش آئے، ہر اُس فائدے اور لذت سے دست بردار ہوجانا جو حرم طریقوں سے حاصل ہو، ہر اُس نقصان اور رنج اور اذیت کو انگیز کر جانا جو حق پرستی کی وجہ سے پہنچے، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اِ س وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے کرنا کہ اِس نیک رویّے کی ثمرات اِس دنیا میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ملیں گے ، ایک ایسا طرز عمل ہے جو مومن کی پوری زندگی کو صبر کی زندگی بنا دیتا ہے ۔ یہ ہر وقت کا صبر ہے ، دائمی صبر ہے، ہمہ گیر صبر ہے اور عمر بھر کا صبرہے۔(مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل  ،البقرہ،حاشیہ۶۰۔ آلِ عمران، حواشی۱۳۱،۱۰۷،۱۳۔ الانعام،حاشیہ۲۳۔ جلددوم، الانفال،حواشی۴۷،۳۷،یونس،حاشیہ،۹۔ہود،حاشیہ۱۱۔الرعد،حاشیہ۳۹۔النحل،حاشیہ۹۸۔جلد سوم،مریم،حاشیہ۴۰۔ الفرقان،حاشیہ۹۴۔ القصص، حواشی۱۰۰،۷۵۔العنکبوت،حاشیہ۹۸۔جلد چہارم،لقمان،حواشی۵۶،۲۹۔ السجَّدہ،حاشیہ۳۷۔ الاَحزاب ،حاشیہ۵۷۔ الزُّمَر،حاشیہ۳۲۔حٰم السجّدہ، حاشیہ۳۸۔ الشّوریٰ،حاشیہ۵۳)۔