اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الدھر حاشیہ نمبر۳

یہ ہے دنیا میں انسان کی، اور انسان کے لیے دنیا کی اصل حیثیت۔ وہ درختوں اور جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصدِ تخلیق یہیں پُورا ہو جائے۔  اور قانون فطرت کے مطابق ایک مدت تک اپنے حصے کا کام کر کے وہ یہیں مر کر فنا ہو جائے۔ نیز یہ دنیا اُس کے لیے نہ  دارالعذاب ہے ، جیسا کہ راہب سمجھتے ہیں، نہ دارالجزا ہے جیسا کہ تَناسُخ کے قائلین سمجھتے ہیں، نہ چراگاہ اور تفریح گاہ ہے، جیسا کہ ما دّہ پرست سمجھتے ہیں، اور نہ رزم گاہ ، جیسا کہ ڈارون اور مارکس کے پیرو سمجھتے ہیں، بلکہ دراصل یہ اُس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے ۔ وہ جس چیز کو عُمر سمجھتا ہے حقیقت وہ امتحان کا وقت ہے جو اُسے یہاں دیا گیا ہے۔ دنیا میں قُوّ تیں اور صلاحیتیں بھی اس کو دی گئی ہیں، جن چیزوں  پر بھی اس کو تصرُّف کے مواقع دیے گئے ہیں، جن  حیثیتوں میں بھی وہ یہاں کام کر رہا ہے، اور جو تعلقات بھی اُس کے اور دوسرے انسانوں کے درمیان ہیں، وہ سب اصل  میں  امتحان کے بے شمار پر چے ہیں، اور زندگی کے آخری سانس تک اِس امتحان کا سلسلہ جاری ہے۔ نتیجہ اس کا دنیا میں نہیں نکلنا ہے بلکہ آخرت میں اُس کے تمام پر چوں کو جانچ کریہ فیصلہ ہونا ہے کہ وہ کامیاب ہوا ہے یا ناکام۔ اور اُس کی کامیابی و ناکامی کا سارا انحصار اس پر ہے کہ اُس نے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہوئے یہاں کام کیا، اور کس طرح امتحان کے وہ پرچے کیے جو اُسے یہاں دیے گئے تھے۔ اگر اس نے اپنے آپ کو بے خدایا بہت سے خدا ؤں کابندہ سمجھا، اور سارے پر چے یہ سمجھتے ہوئے کیے کہ آخرت میں اسے اپنے خالق کے سامنے کوئی جو ابد ہی نہیں کر نی ہے، تو اس کا سارا کارنامہ زندگی غلط ہو گیا۔ اور اگر اس نے اپنے  آپ کو خدائے واحد کا بندہ سمجھ کر اُس طریقے پر کام کیا جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو اور آخرت کی جوابدہی کو پیش نظر رکھا تو وہ امتحان  میں کامیاب ہوگیا،(یہ مضمون قرآن مجید میں اس کثرت کے ساتھ اور اتنی تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اُن سب مقامات کا حوالہ دینا یہاں مشکل ہے۔ جو حضرات اسے پُوری طرح سمجھنا چاہتے ہوں وہ  تفہیم القرآن کی ہر جلد  کے آخر میں فہرست موضوعات کے اندر لفظ ”آزمائش“نکال کر وہ تمام مقامات دیکھ لیں جہاں قرآن میں مختلف پہلو ؤں سے اس کی وضآحت کی گئی ہے۔ قرآن کے سوا دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں یہ حقیقت اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہو)۔