اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الدھر حاشیہ نمبر۳۰

قرآن کا قاعدہ ہے کہ جہاں بھی کفار کے مقابلہ میں صبر  ثبا ت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اُس کے معاً بعد  اللہ کے ذکر اور نماز کا حکم دیا گیا ہے، جس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دینِ حق  کی راہ میں دشمنانِ حق کی مزاحمتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہے وہ اسی چیز سے حاصل ہوتی ہے۔ صبح وشام اللہ کا ذکر کرنے سے مراد ہمیشہ اللہ کو یاد کرنا بھی ہو سکتا ہے ،مگر جب اللہ کی یاد کا حکم اوقات کے تعین کے ساتھ دیا جائے تو پھر اس سے مراد نماز ہوتی ہے اس آیت میں سب سے پہلے فرمایا وَاِذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً۔ بُکرہ عربی زبان میں صبح کو کہتے ہیں۔ اور اِصیل کا لفظ زوال کے وقت سے غروب تک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں ظہر اور عصر کے اوقات آجاتے ہیں۔ پھر فرمایا وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہُ۔ رات کا وقت غروب آفتاب کے بعد شروع ہو جاتا ہے ، اس لیے رات کو سجدہ کرنے کے حکم میں مغرب اور عشاء، دونوں وقتوں کی نمازیں شامل ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد یہ ارشاد کہ رات کے طویل اوقات میں  اس کی تسبیح کرتے رہو، نمازِ تہجّد کی طرف صاف اشار ہ کرتا ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،جلد دوم،بنی اسرائیل،حواشی۹۲تا ۹۷۔جلد ششم،المزمل،حاشیہ۲)۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے یہی اوقات ابتدا سے اسلام میں تھے، البتہ اوقاتِ رکعتوں کے تعیُّن کے ساتھ پنچ وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم معراج کے موقع پر دیا گیا۔