اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النباء حاشیہ نمبر۲۶

بظاہر ایک آدمی یہ خیال کر سکتا ہے کہ جن لوگوں کو خطاب کر  کے یہ بات کہی گئی تھی ان کو مرے ہوئے اب ۱۴ سو سال گزر چکے ہیں، اور اب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قیامت آئندہ کتنے سو، یا کتنے ہزار ، یا کتنے لاکھ برس بعد آئے گی۔ پھر یہ بات کس معنی میں کہی گئی ہے کہ جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے و ہ قریب آلگا ہے؟ اور سورہ کے آغاز میں یہ کیسے کہا گیا ہے کہ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو وقت کا احساس صرف اُسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اِس دنیا میں زمان و مکان کی حدود کے اندر جسمانی طور پر زندگی بسر کر رہاہے۔ مرنے کے بعد جب صرف روح باقی رہ جائے گی، وقت کااحساس و شُعور باقی نہ رہے گا، اور قیامت کے روز جب انسان دوبارہ زندہ ہو کر اٹھے گا اس وقت اسے یوں محسوس ہو گا کہ ابھی سوتے سوتے اسے کسی نے جگا دیا ہے ۔ اس کو یہ احساس بالکل نہیں ہوگا کہ وہ ہزار ہا سال کے بعد دوبارہ زندہ ہوا ہے(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل،حاشیہ۲۶۔بنی اسرائیل، حاشیہ۵۶۔جلد سوم،طٰہٰ، حاشیہ۸۰۔جلد چہارم،یٰس، حاشیہ۴۸)۔