اس رکوع کو چھاپیں

سورة النٰزعٰت حاشیہ نمبر۱

یہاں پانچ اَوصاف رکھنے والی ہستیوں کا قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ لیکن بعد کا مضمون اِس امر پر خود دلالت کرتا ہے کہ یہ قسم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور تمام مرے ہوئے انسان ضرور از سرِ نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ اِس کی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ یہ پانچ اوصاف کن ہستیوں کے ہیں، لیکن صحابہ اور تابعین کی بڑی تعداد نے اور اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، مسرق، سعید بن جُبَیر، ابو صالح، ابو الضُّحٰی اور سُدِّی کہتے ہیں کہ ڈو ب کر کھینچنے والوں اور آہستگی سے نکال لے جانے والوں سے مُراد وہ فرشتے ہیں جو موت کے وقت انسان کی جان کو اس کے جسم کی گہرایوں تک اُتر کر اور اس کی رگ رگ سے کھینچ کر نکالتے ہیں۔ تیزی سے تیرتے  پھرنے والوں سے مراد بھی حضرت علی، حضرت ابن مسعود، مجاہد، سعید بن جُبَیر اور ابو صالح نے فرشتے ہی لیے ہیں جو احکامِ الہٰی کی تعمیل میں اِس طرح تیزی سے رواں دواں رہتے ہیں جیسے کہ وہ فضا میں تیر رہے ہوں۔ یہی مفہوم” سبقت کرنے والوں“کا حضرت علی، مجاہد، مسروق ، ابو صالح اور حسن بصری نے لیا ہے اور سبقت کرنے سے مراد یہ ہے کہ حکمِ الہٰی کا اشارہ پاتے ہی اُن میں سے ہر ایک اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔”معاملات کا انتظام چلانے والوں“ سے مراد بھی فرشتے ہیں، جیسا کہ حضرت علی، مجاہد، عطاء، ابو صالح، حسن بصری، قَتادَہ، ربیع بن انس، اور سُدِّی سے منقول ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ سلطنتِ کائنات کے وہ کارکن ہیں جن کے ہاتھوں دنیا کا سارا انتظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے۔ اِن آیات کے یہ معنی اگرچہ کسی صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہوئے ہیں، لیکن چندا کابر صحابہ نے، اور اُن تابعین نے جو صحا بہ ہی کے شاگرد تھے، جب ان کا یہ مطلب بیان کیا ہے تو گمان یہی ہوتا ہے کہ علم حضورؐ ہی سے حاصل کیا گیا ہوگا۔

          اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اِن فرشتوں کی قسم کس بنا پر کھائی گئی ہے جبکہ یہ خود بھی اُسی طرح غیر محسوس ہیں جس طرح وہ چیز غیر محسوس ہے جس کے واقع ہونے پر ان کو بطور شہادت اور بطورِ استدلال پیش کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے ، واللہ اعلم، کہ اہلِ عرب فرشتوں کی ہستی کے منکر نہ تھے۔ وہ خود اِس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ موت کے وقت انسان کی جان فرشتے ہی نکالتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ فرشتوں کی حرکت انتہائی تیز ہے، زمین سے آسمان تک آناً فاناً وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں اور ہر کام جس کا انہیں حکم دیا جائے بلا تاخیر انجام دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی مانتے تھے کہ یہ فرشتے حکم الہٰی کے تابع ہیں اور کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ ہی کے امر سے چلاتے  ہیں، خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک نہیں ہیں۔ جہالت کی بنا پر وہ ان کو اللہ کی بیٹیاں ضرور کہتے  تھے اور اُن کو معبود بھی بنائے ہوئے تھے، لیکن اُن کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ اصل اختیارات انہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لیے یہاں وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اُن کے مذکورہ بالا اوصاف سے استدلال اس بنا پر کیا گیا ہے کہ جس خدا کے حکم سے فرشتے تمہاری جان نکالتے ہیں اسی کے حکم سے وہ دوبارہ جان  ڈال بھی سکتے ہیں۔ اور جس خدا کے حکم سے  وہ کائنات کا انتظام چلا رہے  ہیں اسی کے حکم سے ، جب بھی اُس کا حکم ہو، اِس کائنات کو وہ درہم برہم بھی کر سکتے ہیں، اور ایک دوسری دنیا بنا بھی سکتے ہیں۔ اُس کے حکم کی تعمیل میں ان کی طرف سے ذرّہ برابر بھی سُستی یا لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں ہو سکتی۔