اس رکوع کو چھاپیں

سورة النٰزعٰت حاشیہ نمبر۱۶

”اس کے بعد زمین کو بچھانے“کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آسمان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی، بلکہ یہ ایسا ہی طرز بیان ہے جیسے ہم ایک بات کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں”پھر یہ بات غور طلب ہے“۔اس سے مقصود ان دونوں باتوں کے درمیان واقعاتی ترتیب بیان کرنا نہیں ہوتا کہ پہلے یہ بات ہوئی اور اس کے بعد دوسری بات، بلکہ مقصود ایک بات  کے بعد دوسری بات کی توجہ دلا نا ہوتا ہےاگر چہ دونوں ایک ساتھ پائی جاتی  ہوں۔ اِس طرز بیان کی متعدد نظیریں خود قرآن میں موجود ہیں۔ مثلاً سُورہ قلم میں فرمایا عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰ لِکَ زَنِیْمٌ”جفا کار ہے اور اس کے بعد بد اصل“۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ جفا کار بنا اور اس کے بعد بد اصل ہوا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جفا کار ہے اور اس پر مزید یہ کہ بد اصل بھی ہے ۔ اسی طرح سورہ بلد میں فرمایا فَکُ رَقَبَۃٍ.....ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ۔” غلام آزاد کرے...... پھر ایمان لانے والوں میں سے ہو“۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ نیک اعمال کرے، پھر ایمان لائے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُن نیک اعمال کے ساتھ ساتھ اس میں مومن ہونے کی صفت بھی ہو۔ اِ س مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن میں کہیں زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں، جیسے سورہ بقرہ آیت۲۹ میں ہے، اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے، جیسے اِن آیات میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ دراصل تضاد نہیں ہے۔ اِن  مقامات میں سے کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ بتانا نہیں ہے کہ کسے پہلے بنا یا گیا اور کسے بعد میں بلکہ جہاں موقع و محل یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  کی قدرت کے کمالات کو نمایاں کیا جائے وہاں آسمانوں کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور زمین کا بعد میں ، اور جہاں سلسلہ کلام  اِس بات کاتقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو اُن نعمتوں کا احساس دلایا جائے جو انہیں زمین پر حاصل ہو رہی ہیں وہاں زمین کے ذکر کو آسمانوں کے ذکر پر مقدم رکھا گیا ہے( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، حٰم السجّدہ، حواشی۱۳۔۱۴)۔