اس رکوع کو چھاپیں

سورة النٰزعٰت حاشیہ نمبر۸

یہاں چند باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں:
(۱)      حضرت موسیٰ کو منصبِ نبوت پر مقرر کرتے وقت جو باتیں اُن کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوئی تھیں اُن کو قرآن مجید میں حسبِ موقع کہیں مختصر اور کہیں مفصّل بیان کیا گیا ہے ۔ یہاں موقع اختصار کا طالب تھا، اس لیے اُن کا صرف خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ سورہ طٰہٰ، آیات۹ تا ۴۸، سورہ شعراء ، آیات۱۰تا۱۷، سورہ نمل، آیات۷تا ۱۲، اور سورہ قصص، آیات۲۹تا ۳۵ میں ان کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔
(۲)      فرعون کی جس سرکشی کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خالق اور خلق ،دونوں کے مقابلے میں سرکشی کرنا ہے ۔ خالق کے مقابلے میں اُس سرکشی کا ذکر تو آگے آرہا ہے کہ اس نے اپنی رعیت کو جمع کر کے اعلان کیا کہ” میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔“۔ اور خلق کے مقابلے میں اس کی سرکشی یہ تھی کہ اس نے اپنی مملکت کے باشندوں کو مختلف گروہوں اور طبقوں میں بانٹ رکھا تھا، کمزور طبقوں پر وہ سخت ظلم و ستم ڈھا رہا تھا، اور اپنی پوری قوم کو بیوقوف بنا کر اس نے غلام بنا رکھا تھا ، جیسا کہ سُورہ قصص آیت۴ اور سُورہ زُخْرُف آیت ۵۴ میں بیان کیا گیا ہے۔
(۳)     حضرت موسیٰ ؑ کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ فَقُوْ لَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشیٰ،”تم اور ہارون دونو ں بھائی اُس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا  ، شاید کہ وہ نصیحت قبول کر ے او خدا سے ڈرے“(القَصَص، آیت۴۴) اِس نرم کلام کا ایک نمونہ تو اِن آیات میں دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مبلّغ کو کسی بگڑے ہوئے آدمی کی ہدایت کے لیے کس حکمت کے ساتھ تبلیغ کرنی چاہیے۔ دوسرے نمونے سورہ طٰہٰ، آیات۴۹تا۵۲، الشعراء،۲۳تا۲۸، اور القصص، آیت ۳۷ میں دیے گئے ہیں۔ یہ منجملہ اُن آیات کے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکمت ِ تبلیغ کی تعلیم دی ہے۔
(۴)     حضرت موسٰی صرف بنی اسرائیل کی رہائی کےلیے ہی فرعون کے پاس نہیں بھیجے گئے تھے، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ، بلکہ ان کی بِعثت کا پہلا مقصد فرعون اور اس کی قوم کو راہ راست دکھانا تھا، اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ اگر وہ راہ راست قبول نہ کرے تو بنی اسرائیل کو ( جو اصل میں ایک مسلمان قوم تھے) اُس کی غلامی سے چُھڑا کر مصر سے  نکال لائیں۔ یہ بات اِن آیات سے بھی ظاہر ہوتی ہے، کیونکہ اِن میں سرے سے بنی اسرائیل کی رہائی کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ  حضرت موسیٰ کو فرعون کے سامنے سے صرف حق کی تبلیغ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اُن مقامات سے بھی ا س کا ثبوت ملتا ہے حہاں حضڑت موسیٰ نے تبلیغ اسلام بھی کی ہے اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ بھی فرمایا ہے۔ مثلاً ملا حظہ ہو ( الاَعراف، آیات۱۰۴۔۱۰۵۔طٰہٰ، آیات۴۷ تا ۵۲۔ الشعراء، آیات۱۶۔۱۷و۲۳ تا۲۸۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، یونس، حاشیہ۷۴)۔
(۵)      یہاں پاکیزگی (تَزَ کِّی) اختیار کرنے کا مطلب عقیدے اور اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کانا، یا دوسرے الفاظ میں اسلام قبول کر لینا ہے۔ ابن زید کہتے ہیں کہ قرآن مجید جہاں بھی تز کِّی کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس سے مراد اسلام قبول کرنا ہی ہے۔ چنانچہ وہ مثال میں قرآن مجید کی حسبِ ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں۔ وَ ذٰ لِکَ جَزَآ ؤُ مَنْ تَزَکّٰی، ” اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے“۔ یعنی اسلام لے آئے۔ وَمَا یُدْ رِیْکَ لَعَلَّہُ یَزَّکّٰی، اور ”تمہیں کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے“، یعنی مسلمان اسلام لے آئے۔ وَمَا  عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی،” اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے“یعنی مسلمان نہ ہو(ابن جریر)۔

(۶)      یہ ارشاد کہ ”میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اس کا خوف)تیرے دل میں پیدا ہو“، اس کا مطلب یہ  ہے کہ جب تو اپنے رب کو پہچان لے گا اور تجھے معلو م ہو جائے گا تو  اُس کا بندہ ہے، مردِ آزاد نہیں ہے، تو لازماً تیرے دل میں اُس کا خوف پیدا ہوگا، اور خوفِ خدا ہی وہ چیز ہے جس پر دنیا میں آدمی کے رویّے کے صحیح ہونے کا انحصار ہے۔ خدا کی معرفت اور اس کے خوف کے بغیر کسی پاکیزگی کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔