اس رکوع کو چھاپیں

سورة عبس حاشیہ نمبر۱۸

اِس سے مُراد بارش ہے۔ سُورج کی حرارت سے بے حدو حساب مقدار میں سمندروں سے پانی بھاپ بنا کر اٹھایا جاتا ہے، پھر اِس سے کثیف باول بنتے ہیں، پھر ہوائیں ان کے لے کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلاتی ہیں، پھر عالمِ بالا کی ٹھنڈک سے وہ بھاپیں از سرِ نو پانی کی شکل اختیار کر تی اور ہر علاقے میں ایک خاص حساب سے برستی ہیں، پھر وہ پانی براہ ِ راست بھی زمین پر برستا ہے، زیرِ زمین کنوؤں اور چشموں کی شکل بھی اختیار کرتا ہے، دریاؤں اور ندی نالوں کی شکل میں بھی بہتا ہے، اور پہاڑوں پر برف کی شکل میں جم کر پھر پگھلتا ہے اور بارش کے موسم کے سوا دوسرے موسموں میں بھی دریاؤں کے اندر رواں ہوتاہے۔ کیا یہ سارے انتظآمات انسان نے خود کیے ہیں؟ اُس کا خالق اُس کی رزق رسانی کے لیے یہ انتظام نہ کرتا تو کیا  انسان زمین پر جی سکتا تھا؟