اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورة عبس

 

                                                         
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام :پہلے ہی لفظ عَبَسَ کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول :مفسرین  و محدّثین نے بالاتفاق اِس سُورہ کا سببِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں مکّہ معظمہ کے چند بڑے سردار بیٹھے ہوئے تھے اور حضورؐ اُن کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش فرمارہے تھے۔ اتنے میں ابنِ اُمِّ مکتوم نامی ایک نابینا حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ سے اسلام کے متعلق کچھ پوچھنا چاہا۔ حضورؐ کو ان کی یہ مداخلت ناگوار ہوئی اور آپؐ نے اُن سے بے رُخی برتی۔ اِس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سُورہ نازل ہوئی۔ اِس تاریخی واقعہ سے اِس سُورہ کا زمانہ نزول بآسانی متعیّن ہو جاتا ہے۔
اوّلاً یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم بالکل ابتدائی دور کے اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ حافظ ابنِ حَجَر اور حافظ ابن کثیر تصریح کرتے ہیں اَسْلَمَ بِمَکَّۃَ قَدِیْماً، اور ھُوَ مِمَّنْ اَسْلَمَ قَدِیْماً، یعنی یہ اُن لوگوں میں سے تھے جو مکّہ معظمہ میں بہت پہلے اسلام لائے تھے۔
ثانیاً حدیث کی جن روایات میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے ان میں سے بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت وہ اسلام لا چکے تھے اور بعض سے ظا رہ ہوتا ہے کہ اسلام کی طرف مائل ہوچکے تھے اور تلاشِ حق میں حضورؐ کے پاس آئے تھے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اُنہوں نے آکر عرض کیا تھا: یارسول اللہ ، ارشدنی،”یارسول  اللہ، مجھے سیدھا راستہ بتائے“(ترمذی،حاکم،ابن حبان، ابن جریر، ابو یعلیٰ)۔ حضرت عبداللہ بن عابس کی روایت ہے کہ وہ آکر قرآن کی  ایک آیت  کا مطلب پوچھنے لگے اور حضورؐ سے عرض کیا یارسول اللہ علّمنی ممّا علّمک اللہ،” یارسول اللہ، مجھے وہ علم سکھائیے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے“(ابن جریر، ابن ابی حاتم)۔ اِن بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضورؐ کو خدا کا رسول اور قرآن کو خدا کی کتاب تسلیم کرچکے تھے۔ دوسری طرف ابنِ زید آیت کے ۳ الفاظ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی کا مطلب لَعَلَّہٗ یُسْلم ” شاید کہ وہ اسلام قبول کر لے“بیان کرتے ہیں (ابن جریر)۔ اور اللہ تعالیٰ کا اپنا یہ ارشاد بھی کہ”تمہیں کیا خبر، شاید وہ سُدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اُس کے لیے نافع ہو“؟ اور یہ کہ ”جو خود تمہارے پاس دوڑ آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے، اُس سے تم بے رُخی برتتے ہو“ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اُس وقت اُن کے اندر طلب ِ حق کا گہرا جذبہ پیدا ہو چکا تھا، وہ حضورؐ ہی کو ہدایت کا منبع سمجھ کر آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے تھے کہ اُن کی یہ طلب یہیں سے پُوری ہوگی، اور یہ بات ان کی حالت سے ظارہ ہو رہی تھی کہ انہیں ہدایت دی جائے تو وہ اس سے مستفید ہوں گے۔
ثالثاً حضورؐ کی مجلس میں جو لوگ اُس وقت بیٹھے تھے ، مختلف روایات میں اُن کے ناموں کی صراحت کی گئی ہے۔اس فہرست میں ہمیں عُتْبہ، شَیْبہ، ابو جہل ، اُمیَّہ ، اُبَیّ بن خلف جیسے بد ترین دشمنانِ اسلام کے نام ملتے ہیں ۔ اس سے معلو م ہوتا ہے کہ واقعہ اُس زمانے میں پیش  آیاتھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اِن لوگوں کا میل جول ابھی باقی تھا اور کشمکش اتنی بہ بڑھی تھی کہ آپ کے ہاں اُن کی آمد و رفت اور آپ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ بند ہو گیا ہو۔ یہ سب امور اس پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ سُورہ بہت ابتدائی زمانے کی نازل شُدہ سُورتوں میں سے ہے۔

موضوع اور مضمون:بظاہر کلام کے آغاز کا اندازِ بیان دیکھ کر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ نا بینا سے بے رُخی برتنے اور بڑے بڑے سرداروں کی طرف توجہ کرنے کی بنا پر اِس سورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب فرمایا گیا ہے۔ لیکن پُوری سُورۃ پر مجموعی حیثیت سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل عِتاب کفارِ قریش کے اُن سرداروں پر کیا گیا ہے جو اپنے تکبُّر اور ہٹ دھرمی اور صداقت سے بے نیازی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغِ حق کو حقارت کے ساتھ رد کر رہے تھے، اور حضورؐ کو تبلیغ کا صحیح طریقہ بتانے کے ساتھ ساتھ اُس طریقے کی غلطی سمجھائی گئی ہے جو اپنی رسالت کے کام کی ابتدا میں آپ کو اختیار فرمار ہے تھے۔ آپ کا ایک نابینا سے بے رُخی بر تنا اور سردارانِ قریش کی طرف توجہ کرنا کچھ اس بنا پر نہ تھا کہ آپ بڑے لوگوں کا معزّز اور ایک بیچارے نابینا کو حقیر سمجھتے تھے، اور معاذ اللہ یہ کوئی کج خُلقی آپؐ کے  اندر پائی جاتی تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی۔ بلکہ معاملہ کی اصل نوعیت یہ ہے کہ ایک داعی جب اپنی عورت کا آغاز کرنے لگتا ہے تو فطری طور پر  اس کا رُحجان اِس طرف ہوتا ہے کہ قوم کے با ثر لوگ اس کی دعوت قبول کر لیں تا کہ کام آسان ہو جائے، ورنہ عام بے اثر، معذور یا کمزور لوگوں میں دعوت پھیل بھی جائے تو اس  سے کوئی  بڑا فرق نہیں پڑ سکتا۔ قریب قریب یہی  طرز عمل ابتدا میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اختیار فرمایا تھا جس کا محرّک سراسر اخلاص اور دعوت ِ حق کو فروغ دینے کا جذبہ تھا نہ کہ بڑے لوگو ں کو تعظیم اور چھوٹے لوگوں کی تحقیر کا تخیُّل۔ لیکن اللہ تعالی ٰ نے آپ کو سمجھا یا کہ اسلامی دعوت کو صحیح طریقہ یہ نہیں ہے، بلکہ اِس دعوت کے نقطئہ نظر سے ہر وہ انسا ن اہمیت رکھتا ہے جو طالبِ حق ہو، چاہے وہ کیسا ہی کمزور ، بے اثر، یا معذور ہو، اور ہر وہ شخص غیر اہم ہے جو حق سے بے نیازی برتے، خواہ وہ معاشرے  میں کتنا ہی بڑا مقام رکھتا ہو۔ اس لیے آپ اسلام کی تعلیمات تو ہانکے پکارے سب کو سنا ئیں ، مگر آپ کی توجہ کے  اصل مستحق وہ لوگ ہیں جن میں قبولِ حق کی آمادگی پائی جاتی ہو، اور آپ کی بلند پایہ دعوت کے مقام سے یہ بات فروتر ہے کہ آپ اِسے  اُن مغرور لوگوں کے آگے پیش کریں جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں یہ سمجھتے ہوں کہ اُن کو آپ کی  نہیں بلکہ آپ کو اُن کی ضرورت ہے۔
          یہ آغاز سورہ سے آیت ۱۶ تک کا مضمون ہے۔ اس کے بعد آیت ۱۷ سے اسے براہِ راست عتاب کا رُخ ان کفار کی طرف پھر جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو رد کر رہے تھے۔ اس میں پہلے اُس رویّے پر اُنہیں ملامت کی گئی ہے جو وہ اپنے خالق و رازق پر وردگار کے مقابلے میں برت رہے تھے، اور آخر میں ان کو خبر دار کیا گیا ہے کہ قیامت کے روز وہ اپنی اس روش کا کیسا ہولناک انجام دیکھنے والے ہیں۔

www.tafheemulquran.net