اس رکوع کو چھاپیں

سورة التکویر حاشیہ نمبر۹

اس آیت کے اندازِ بیان میں ایسی شدید غضبناکی پائی جاتی ہے جس سے زیادہ سخت غضبناکی کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے والے ماں باپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایسے قابل نفرت ہوں گے کہ ان کو مخاطب کر کے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے اِس معصوم کو کیوں قتل کیا، بلکہ ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ تو بے چاری آخر کس قصور میں ماری گئی، اور وہ اپنی داستان سنائے گی کہ ظالم ماں باپ نے اس کے ساتھ کیا ظلم کیا اور کس طرح اسے زندہ دفن کر دیا۔ اس کے علاوہ اس مختصر سی آیت میں دو بہت بڑے مضمون سمیٹ دیے گئے ہیں جو الفاظ میں بیان کیے بغیر خود بخود اس کے فَحویٰ سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس میں اہل عرب کو یہ  احساس دلا یا گیا ہے کہ جاہلیت نے ان کو اخلاقی پستی کی کس انتہا پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں زندہ در گور کرتے ہیں، پھر بھی انہیں اصرار ہے کہ اپنی اِسی جاہلیت پر قائم رہیں گے اور اُس اصلاح کو قبول نہ کریں گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بگڑے ہوئے معاشرے میں کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اِس میں آخرت کے ضروری ہونے کی ایک صریح دلیل پیش کی گئی ہے۔ جس لڑکی کو زندہ دفن کر دیا گیا، آخر اس کی کہیں تو دادرسی ہونی چاہیے، اور جن ظالموں نے یہ ظلم کیا ، آخر کبھی تو وہ وقت آنا چاہیے جب ان سے اِس بے دردانہ ظلم کی باز پرس کی جائے۔ دفن ہونے والی لڑکی کی فریاد دنیا میں تو کوئی سننے والا نہ تھا۔ جاہلیت کے معاشرے میں اِس فعل کو بالکل جائز کر رکھا گیا تھا۔ نہ ماں باپ کو اس پر کوئی شرم آتی تھی۔ نہ خاندان میں کوئی ان کو ملامت کرنے والا تھا۔ نہ معاشرے میں کوئی اس پر گرفت کرنے والا تھا۔ پھر کیا خدا کی خدائی میں یہ ظلمِ عظیم بالکل ہی بے داد رہ جانا چاہیے؟
          عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر نے کا یہ بے رحمانہ طریقہ قدیم زمانے میں مختلف وجوہ سے رائج ہو گیا تھا۔ ایک، معاشی خستہ حالی جس کی وجہ سے لوگ چاہتے تھے کہ کھانے والے کم ہوں اور اولاد کو پالنے پوسنے کا بار اُن پر نہ پڑے۔ بیٹوں کو تو اس امید پر پال لیا جاتا تھا کہ بعد میں وہ حصول معیشیت میں ہاتھ بٹائیں گے، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ انہیں جوان ہونے تک پالنا پڑے گا اور پھر انہیں بیاہ دینا ہو گا۔ دوسرے ،عام بد امنی جس کی وجہ سے بیٹوں  کو اس لیے پالا جاتا تھا کہ جس کے جتنے زیادہ بیٹے ہوں گے اس کے اتنے ہی حامی و مدد گار ہوں گے، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ قبائلی لڑائیوں میں الٹی ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی اور دفاع میں وہ کسی کام نہ آسکتی تھی۔ تیسرے عام بد امنی کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا کہ دشمن قبیلے جب ایک دوسرے پر اچانک چھاپے مارتے تھے تو جو لڑکیاں بھی ان کے ہاتھ لگتی تھیں انہیں لے جا کر وہ یا تو لونڈیاں بنا کر رکھتے تھے یا کہیں بیچ ڈالتے  تھے۔ ان وجوہ سے عرب میں یہ طریقہ چل پڑا تھا کہ کبھی تو زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے گڑھا کھود رکھا جاتا تھا کہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دی جائے۔ اور کبھی اگر ماں اس پر راضی نہ ہوتی یا اس کے خاندان والے اس میں مانع ہوتے تو باپ بادلِ نا خواستہ اسے کچھ مدت تک پالتا اور پھر کسی وقت صحرا میں لے جا کر زندہ دفن کر  دیتا۔ اس معاملہ میں جو شقادت برتی جاتی تھی اس کا قصہ ایک شخص نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ  بیان کیا۔ سُنَنِ دارِمی کے پہلے ہی باب میں یہ حدیث  منقول ہے کہ ایک شخص نے حضورؐ سے اپنے عہد جاہلیت کا یہ واقعہ بیان کیا  کہ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ جب میں اس کو پکارتا تو دوڑی دوڑی میرے پاس آتی تھی۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا۔ راستہ میں ایک کنواں آیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی  وہ تھی ہائے ابّا۔ ہائے ابّا۔ یہ سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو دیے اور آپ کے آنسو بہنے لگے۔ حاضرین میں سے ایک نے کہا اے شخص تو نے حضورؐ کو غمگین کر دیا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ اسے مت روکو، جس چیز کا اِسے سخت احساس ہے اُس کے بارے میں اِسے سوال کرنے دو۔ پھر آپ نے اس سے فرما یا کہ اپنا قصہ پھر بیان کر۔ اس نے دوبارہ اسے بیان کیا اور آپ سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسووں سے تر ہو گئی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو کچھ ہو گیا اللہ نے اسے معا ف کر دیا، اب نئے سرےسے اپنی زندگی کا آغاز کر۔
          یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اہلِ عرب اِس انتہائی غیر انسانی فعل کی قباحت کا سرے سے کوئی احساس ہی نہ رکھتے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی معاشرہ خواہ کتنا ہی بگڑ چکا ہو،  وہ ایسے ظالمانہ افعال کی برائی کے احساس سے بالکل خالی نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے قرآن پا ک میں اِس فعل کی قباحت پر کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی ہے، بلکہ رونگٹے کھرے کر دینے والے الفاظ میں صرف اتنی بات کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا۔ جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قصور میں ماری گئی۔ عرب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو  زمانہ جاہلیت میں اس رسم کی قباحت کا احساس تھا۔ طَبرانی کی روایت ہے  کہ فَرَزْدَق شاعر کے دادا صَعْصَعہ بن ناجیتہ المُجاشعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ، میں نے جاہلیت کے زمانے میں جو کچھ اچھے اعمال بھی کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے ۳۶۰ لڑکیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچا لیا اور ہر ایک کی جان  بچانے کے لیے دو دو اونٹ فدیے میں دیے۔ کیا مجھے اس پر اجر ملے گا؟حضورؐ نے فرمایا ہاں تیرے لیے اجر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے تجھے اسلام کی نعمت عطا فرمائی۔
          درحقیقت یہ اسلام کی برکتوں میں سے ایک بڑی برکت ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ عرب سےاس انتہائی سنگدلانہ رسم کا خاتمہ کیا، بلکہ اِس تخیل کو مٹایا کہ بیٹی کی پیدائش کوئی حادثہ اور مصیبت ہے جسے بادلِ ناخواستہ برداشت کیا جائے۔ اس کے بر عکس اسلام نے یہ تعلیم دی کہ بیٹیوں کو پرورش کرنا ، انہیں عمدہ تعلیم و تربیت دینا اور انہیں اس قابل بنا نا کہ وہ ایک اچھی گھر والی بن سکیں، بہت بڑا نیکی  کا کام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں لڑکیوں کے متعلق لوگوں کے عام تصوُّر کو جس طرح بدلا ہے اس کا اندازہ آپؐ کے ان بہت سے ارشادات سے ہو سکتا ہے جس احادیث میں منقول ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل میں ہم آپؐ کے چند ارشادات نقل کرتے ہیں:
                    مَن ابتُلِیَ من ھٰذہ البنات بِشیٍٔ فاحسن الیھنّ کن لہٗ سِتْرًا من النّار۔(بخاری ۔مسلم)
جو شخص اِن لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے اور پھر وہ اِن سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم کی آ گ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔
         
                    من عال حاریتین حتّٰی تبلُغَا جاء یوم القیٰمۃ اناو ھٰکذا وضم اصابعہٗ       (مسلم)
جس نے دو لڑکیوں کو پرورش کیا یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا، یہ فرما کر حضورؐ نے اپنی انگلیوں کو جوڑ کر بتایا۔

من عال ثلٰث بنات او مثلھن من الا خوات فا دّ بھن و رحمھن حتّٰی یغیْھن اللہ اوجب اللہ لہ الجنّۃ۔ فقال رجل یا رسول اللہ او اثنتین ۹ قال او اثنتین حتّی لو قالو او واحدۃ لقال واحدۃ۔ (شرح السّنۃ)
جس شخص نے تین بیٹیوں ، یا بہنوں کو پرورش کیا، ان کو اچھا ادب سکھایا اور ان سے شفقت کا برتاؤ کیا یہاں تک کہ وہ اس کی مدد کی محتاج نہ رہیں تو اللہ اس کے لیے جنت واجب کردیگا۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اور دو ۔حضورؐ نے فرمایا اور دو بھی۔ حدیث کے راوی ابن عباس کہتے ہیں کہ اگر لوگ اس وقت ایک کے متعلق پوچھتے تو حضورؐ اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے۔

من کانت لہ انثٰی فلم یئد ھا ولم یھنھا ولم یؤثر ولدہ علیھا ادخلہ اللہ الجِنّۃ۔ (ابو داؤد)
جس کے ہاں لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، نہ ذلیل کر کے رکھے، نہ بیٹے کو اُس پر ترجیح دے اللہ اسے جنّت میں داخل کرے گا۔

من کان لہ ثلاث بنات و صبر علیھنّ وکسا ھُن من جِدَتِہٖ کن لہ حِجاَ بًا مّن النار (بخاری فی الادب المفرد۔ ابن ماجہ)
جس کے ہاں تین بیٹیاں ہوں اور ہو ان پر صبر کرے اور اپنی وسعت کے مطابق ان کو اچھے کپڑے پہنائے وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔

                    ما من مسْلم تد رکہ ابنتان فیحسن صحبتھما الا اد خلتا ہ الجنّۃ۔ (بخاری، ادب المفرد)
جس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی طرح رکھے وہ اسے جنت میں پہنچائیں گی۔

انّ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لسُر ا قۃ بن جُعْشم الا اد لک علی اعظم الصدقۃ او من اعظم الصد قۃ قال بلیٰ یا رسول اللہ قال ابنتک المردودۃ الیک لیس لھا کا سب غیرک۔ (ابن ماجہ۔ بخاری فی الادب المفرد)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سُراقہ بن جُعْشم سے فرمایا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بڑا صدقہ (یا فرمایابڑے صدقوں میں سے ایک) کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ۔ فرمایا تیری وہ بیٹی جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو۔

                    یہی وہ تعلیم ہے جس نے لڑکیوں کے متعلق لوگوں کا نقطئہ نظر صرف عرب ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی اُن تمام قوموں میں بد ل دیا جو اسلام کی نعمت سے فیض یاب ہوتی چلی گئیں۔