اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ انفطار حاشیہ نمبر۴

یعنی اول تو اُس موسم پر پروردگا ر کے  احسان وکرم کا  تقاضہ یہ تھا کہ  تو شکر گزار اور احسان مند ہو کر اس کا فرمانبردار بنتا اور اس کی نا فرمانی کرتے ہوئے تجھے شرم آتی، مگر تو اس دھوکے میں پڑ گیا کہ تو جو کچھ بھی بنا ہے خود ہی بن گیا ہے اور یہ خیال تجھے کبھی نہ آیا کہ اس وجود کے بخشنے والے کا احسان مانے۔ دوسرے، تیرے رب کا یہ کرم ہے کہ دنیا میں جو کچھ تو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ یونہی تجھ سے کوئی خطا سرزد ہو وہ تجھ پر فالج گرا نہ لے، یا تیری آنکھیں اندھی کر دے، یا تجھ پر بجلی گرا دے۔ لیکن تو نے اس کریمی کو کمزوری سمجھ لیا اور اس دھوکے میں پڑ گیا کہ تیرے خدا کی خدائی میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔