اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورة المطففین

 

                                                         
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام : پہلی ہی آیت وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ سے ماخوذ ہے۔

زمانۂ نزول : اس کے اندازِبیان اور مضامین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے جب اہل مکہ کے ذہن میں آخرت کا عقیدہ بٹھانے کے لیے پے در پے سورتیں نازل ہورہی تھیں، اور اس کا نزول اُس زمانے میں ہوا ہے جب اہل مکہ نے سڑکوں پر، بازاروں میں  اور مجلسو ں میں مسلمانوں پر آوازے کسنے اور ان کی توہین ذنذیل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، مگر ظلم و ستم اور مار پیٹ کا دورا بھی شروع نہیں ہوا تھا۔۔ بعض مفسرین نے اس سورہ کو مدنی قرار دیا ہے۔اِس غلط فہمی کی وجہ دراصل ابن عباسؓ کی یہ روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے تو یہاں کے لوگوں میں کم ناپنے اور تولنے کا مرض بُری طرح پھیلا ہوا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ نازل کی اور لو گ بہت اچھی طرح ناپنے تولنے لگے (نسائی، ابن ماجہ، ابن مردویہ، ابن جریر، بیقہی فی شُعَب الایمان)۔ لیکن جیسا کہ اس سے پہلے ہم سورہ دَہر کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں، صحابہ اور تابعین کا یہ عام طریقہ تھا کہ ایک آیت جس معاملہ پر چسپاں ہوتی ہو اس کے متعلق وہ یوں کہا کرتے تھے کہ یہ فلاں معاملہ میں نازل ہوئی ہے۔ اس لیے ابن عباس کی روایت سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جب ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے لوگوں میں یہ بُری عادت پھیلی ہوئی پائی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے یہ سورت ان کو سنائی اور اِس سے اُن کے معاملات درست ہوگئے۔

موضوع اور مضمون: اس کاموضوع بھی آخرت ہے۔
پہلی چھ آیتوں میں اُس عام بے ایمانی پر گرفت کی گئی ہے جو کاروباری لوگوں میں بکثرت پھیلی ہوئی تھی کہ دوسروں سے لینا ہوتا تھا تو پورا ناپ کر اور تول کر لیتے تھے، مگر جب دوسروں کو دینا ہوتا تو ناپ تول میں ہر ایک کو کچھ نہ کچھ  گھاٹا دیتے تھے۔ معاشرے کی  بے شمار خرابیوں میں سے اِس ایک خرابی  کو، جس کی قباحت سے کوئی انکار نہ کر سکتا تھا، بطورِ مثال لے کر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ آخرت سے غفلت کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب تک لوگوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ایک روز خدا کے سامنے پیش ہونا ہے اور کوڑی کوڑی کا حساب دینا ہے اُس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے معاملات میں کامل راستبازی اختیار کر سکیں۔ کوئی شخص دیانت داری کو”اچھی پالیسی“سمجھ کر بعض چھوٹے چھوٹے معاملات میں دیانت برت بھی لے تو ایسے مواقع پر وہ کبھی دیانت نہیں برت سکتا جہاں بے ایمانی ایک”مفید پالیسی“ثابت ہوتی ہو۔ آدمی کے اندر سچّی اور مستقل دیانت داری اگر پیدا ہو سکتی ہے تو صرف خدا کے خوف اور آخرت پر یقین ہی سے ہو سکتی ہے، کیونکہ اِس صورت میں دیانت ایک ”پالیسی“نہیں بلکہ”فریضہ“قرار پاتی ہے اور آدمی کے اُس پر قائم رہنے یا نہ رہنے کا انحصار دنیا میں اس کے مفید یا غیر مفید ہونے پر نہیں رہتا ۔
اس طر ح اخلاق کے ساتھ عقیدہ آخرت کا تعلق نہایت مؤثر اور دل نشین طریقہ سے واضح کرنے کے بعد آیت ۷ سے ۱۷ تک بتایا گیا ہے کہ بد کار لوگوں کے نامہ اعمال پہلے ہی جرائم پیشہ لوگوں کے رجسٹر(Black list ) میں درج ہورہے ہیں اور آخرت میں ان کو سخت تباہی سے  دو چار ہونا ہے۔پھرآیت ۱۸ سے۲۸ تک نیک لوگوں کا بہترین انجام بیان کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے اعمال نامے بلند پایہ لوگوں کے رجسٹر میں درج ہورہے ہیں جس پر مقرب فرشتے مامور ہیں۔
          آخر میں اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے اور اس کے ساتھ کفار کو خبر دار بھی کیا گیا ہے کہ آج جو لوگ ایمان لانے والوں کی تذلیل کر رہے ہیں، قیامت کے روز یہی مجرم لوگ اپنی اِس روش کا بہت بُرا انجام دیکھیں گے اور یہی ایمان لانے والے ان مجرموں کا بُرا انجام دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔

www.tafheemulquran.net