اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانشقاق حاشیہ نمبر۶

یعنی اُس سے سخت حساب فہمی نہ کی جائے گی۔ اُس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ فلاں فلاں کام تونے کیوں کیے تھے اور تیرے پاس اُن کاموں کے لیے کیا عذر ہے۔ اُس کی بھلائیوں کے ساتھ اُس کی برائیاں بھی اُس کے نامہ اعمال میں موجود ضرور ہوں گی، مگر بس یہ دیکھ کر کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں سے بھاری ہے ، اس کے قصوروں سے درگزر کیا جائےگا اور اسے معاف کر دیا جائے گا۔ قرآن مجید میں بد اعمال لوگوں سے سخت حساب فہمی کے لیے سُوءُ الْحِسابِ (بری طرح حساب لینے) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں (الرعد، آیت۱۸)، اور نیک لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ”یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہم ان کے بہتر اعمال قبول کر لیں گے اور ان کی برائیوں سے درگزر کریں گے“(الاحقاف، آیت۱۶)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی جو تشریح فرمائی ہے اُسے امام احمد،بخاری،مسلم، ترمذی، نَسائی، ابو داؤد،حاکم ،ابن جریر، عبد بن حُمَید اور بن مردویہ نے مختلف الفاظ  میں حضرت عائشہؓ  نے نقل کی اہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا”جس سے بھی حساب لیا گیا وہ مارا گیا“۔حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایاکہ”جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا“؟حضورؐ نے جواب دیا”وہ تو صرف اعمال کی پیشی ہے ، لیکن جس سے پوچھ گچھ کی گئی وہ مارا گیا“۔ایک اور روایت میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضورؐ کو نماز میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ ”خدایا مجھ سے حساب لے“۔آپ نے جب سلام پھیرا تو میں نے اس کا مطلب پوچھا۔ آپ نے فرمایا”ہلکے حساب سے مراد یہ ہے کہ بندے کے نامہ اعمال کو دیکھا جائے گا اور اُس سے درگزر کیا جائے گا۔ اے عائشہؓ، اُس روز جس سے حساب فہمی کی گئی وہ مارا گیا“۔