اس رکوع کو چھاپیں

سورة الطارق حاشیہ نمبر۴

یعنی جس طرح وہ انسان کو وجود میں لاتا ہے اور استقرارِ حمل کے وقت سے مرتے دم تک اس کی نگہبانی کرتا ہے ، یہی اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ وہ اُسے موت کے بعد پلٹا کر پھر وجود میں لا سکتا ہے ۔ اگر وہ پہلی چیز پر قادر تھا اور اُسی قدرت کی بدولت انسان دنیا میں زندہ موجود ہے، تو آخر کیا معقول دلیل یہ گمان کرنے کے لیے پیش کی جا سکتی ہے کہ دوسری چیز پر وہ قادر نہیں ہے۔ اِس قدرت کا انکار کرنے کے لیے آدمی کو سرے سے  اِس بات کا انکار کرنا ہوگا کہ خدا اُسے وجود میں لایا ہے، اور جو شخص اس  کا انکار کرئے اس سے کچھ بعید نہیں کہ ایک روز اُس کے دماغ کی خرابی اُس سے یہ دعوٰی بھی کرادے کہ دنیا کی  تمام کتابیں ایک حادثہ کے طور پر چھپ گئی ہیں، دنیا کے تمام شہر ایک حادثہ کے طور پر بن گئے ہیں ، اور زمین پر کوئی اتفاقی حادثہ ایسا ہو گیا تھا جس سے تمام کار خانے بن کر خود بخود چلچے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تخلیق اور اس کے جسم کی بناوٹ اور اس کے اندر کام کرنے والی قوتوں اور صلاحیتوں کا پیدا ہونا اور اس کا ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے باقی رہنا اُن تمام کاموں سے بدر جہا زیادہ پیچیدہ عمل ہے جو انسان کے ہاتھوں دنیا میں ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ اتنا بڑا پیچیدہ عمل اِس حکمت اور تناسُب اور تنظیم کے ساتھ اگر اتفاقی حادثہ کے طور پر ہو سکتا ہو تو پھر کونسی چیز ہے جسے ایک دماغی مریض حادثہ نہ کہہ سکے؟