اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعلیٰ حاشیہ نمبر۳

یعنی ہر چیز کے پیدا کرنے سے پہلے یہ طے کر دیا کہ اسے دنیا میں کیا کام کرنا ہے اور اُس کا م کے لیے اُس کی مِقدار کیا ہو، اُس کی شکل کیا ہو، اس کی صفات کیا ہوں، اس کا مقام کس جگہ ہو، اس کے لیے بقاء اور قیام اور فعل کے لیے کیا مواقع اور ذرائع فراہم کیے جائیں، کسی وقت وہ وجود میں آئے، کب تک اپنے حصے کا کام کرے اور کب کس طرح ختم ہو جائے۔ اِس پوری اسکیم کا مجموعی نام اُس کی  ”تقدیر“ ہے، اور یہ تقدیر اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کے لیے اور مجموعی طور پر پوری کائنات کے لیے بنائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تخلیق کسی پیشگی منصوبے کے بغیر کچھ یونہی الل ٹپ نہیں ہو گئی ہے بلہ اس کے لیے ایک پورا منصوبہ خالق کے پیش نظر تھا اور سب کچھ اس منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الِحجر، حواشی ۱۴-۱۳۔ جلد سوم، الفرقان، حاشیہ۸۔ جلد پنجم، القمر، حاشیہ ۲۵۔ جلد ششم، عبس، حاشیہ ۱۲)۔