اس رکوع کو چھاپیں

سورة الغاشیة حاشیہ نمبر۷

یعنی اگر یہ لوگ آخرت کی یہ باتیں سُن کر کہتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہو سکتا ہے ، تو کیا خود اپنے گرد و پیش کی دنیا  پر نظر ڈال کر انہوں نے کبھی بھی نہ سوچا کہ یہ اُونٹ کیسے بن گئے؟ یہ آسمان کیسے بلند ہو گیا؟ یہ پہاڑ کیسے قائم ہو گئے؟ یہ زمین کیسے بِچھ گئی؟ یہ ساری چیزیں اگر بن سکتی تھیں تو اوربنی ہوئی ان کے سامنے موجود ہیں تو قیامت کیوں نہیں آسکتی؟ آخرت میں ایک دوسری دُنیا کیوں نہیں بن سکتی؟ دوزخ اور جنت کیوں نہیں ہو سکتیں؟ یہ تو ای بے عقل اور  بے فکر آدمی کا کام ہے کہ دنیا میں آنکھیں کھولتے ہی جن چیزوں کو اس نے موجود پایا ہے ان کے متعلق تو وہ یہ سمجھ لے کہ ان کا وجود میں آنا تو ممکن ہے کیونکہ یہ وجود میں آئی ہوئی ہیں  ، مگر جو چیزیں اس کے مشاہدے اور تجربے میں ابھی نہیں آئی ہیں ان کے بارے میں وہ بے تکلف یہ فیصلہ کر دے کہ اُن کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس کے دماغ میں اگر عقل ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ جو کچھ موجود ہے یہ آخر کیسے وجود میں آگیا ؟ یہ اُونٹ ٹھیک اُن خصوصیات کے مطابق کیسے بن گئی جن خصوصیات کے جانور  کی عرب کے صحر امیں رہنے والے انسانوں کو ضرورت تھی؟ یہ آسمان کیسے بن گیا جس کی فضا میں سانس لینے کے لیے ہوا بھری ہوئی ہے، جس کے بادل بارش لے کر آتے ہیں، جس کا سورج دن کو روشنی اور گرمی فراہم کرتا ہے، جس کے چاند اور تارے رات کو چمکتے ہیں؟  یہ زمین کیسے بِچھ گئی جس پر انسان رہتا اور بَستا ہے، جس کی پیداوار سے اس کی تمام ضروریات پوری ہوتی ہیں، جس کے چشموں اور کنوؤں پر اس کی زندگی کا انحصار ہے ؟ یہ پہاڑ زمین کی سطح پر کیسے اُبھر آئے جو رنگ برنگ کی مٹی اور پتھر اور طرح طرح کی معدنیات لیے ہوئے جمّے کھڑے ہیں؟ کیا یہ سب کچھ کسی قادرِ مطلق صانع حکیم کی کاری گری کے بغیر ہو گیا ہے؟ کوئی سوچنے اور سمجھنے والا دماغ اس سوال کا جواب نفی  میں نہیں دے سکتا۔  وہ اگر ضدّی اور ہٹ دھرم نہیں ہے تو اسے ماننا پڑے گا کہ ان میں سے ہر چیز نا ممکن تھی اگر کسی زبردست قدرت  اور حکمت والے نے  اسے ممکن نہ بنایا ہوتا ۔ اور جب ایک قادر کی قدرت سے  دنیا کی ان چیزوں کا بننا ممکن ہے تو  کوئی وجہ نہیں کہ جن چیزوں کے آئندہ وجود میں آنے کی خبر دی جا رہی ہے اُن کو بعید از امکان سمجھا جائے۔