اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفجر حاشیہ نمبر۹

یعنی یہ ہے انسان کا مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات ۔ اسی دنیا کے مال و دولت اور جاہ و اقتدار    کو وہ سب کچھ سمجھتا ہے ۔ یہ چیز ملے تو پھُول جاتا ہے اور کہتا ہے کہ  خدا نے مجھے عزّت دار بنا دیا ، اور یہ نہ  ملے تو کہتا ہے کہ خدا نےمجھے ذلیل کر دیا۔ گویا عزّت اور ذلّت کا معیار اُس کے نزدیک مال و دولت اور جاہ و اقتدار کا ملنا یا نہ ملنا ہے۔  حالانکہ اصل حقیقت جسے وہ نہیں سمجھتا یہ ہے کہ اللہ نے جس کو دنیا کو جو کچھ بھی دیا ہے آزمائش کے لیے دیا ہے۔ دولت اور طاقت دی ہے تو امتحان کے لیے دی ہے کہ وہ اسے پا کر شکر گزار بنتا ہے یا ناشکری کرتا ہے۔ مفلس اور تنگ حال بنایا ہے کہ تو اس میں بھی اُس کا امتحان ہے کہ صبر اور قناعت کے  ساتھ راضی بر ضا رہتا ہے اور جائز حدُود کے اندر رہتے ہوئے اپنی مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے، یا اخلاق و دیانت کی ہر حد کو پھاند جانے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنے  خدا کو کوسنے لگتا ہے۔