اس رکوع کو چھاپیں

سورة البلد حاشیہ نمبر۱۴

یہ مومن معاشرے کی دو اہم خصوصیات ہیں جن کو دو مختصر فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اُس کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں ۔ اور دوسری یہ کہ وہ ایک دوسرے کو رحم کی تلقین کریں۔
جہاں تک صبر کا تعلق ہے ، ہم اِس سے پہلے بارہا اس امر کی  وضاحت کر چکے ہیں کہ قرآن مجید جس وسیع مفہوم میں اس لفظ کو استعمال کرتا ہے اُس کے لحاظ سے مومن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے ، اور ایمان کے راستے پر قدم رکھتے ہی آدمی کے صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ خدا کی فرض کردہ عبادتوں کے انجام دینے میں صبر  درکار ہے۔ خدا کے احکام کی اطاعت  وپیروی میں صبر کی ضرورت ہے۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا  صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اخلاق کی بر ائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ  اخلاق اختیار کرنا صبر چاہتا ہے۔ قدم قدم پر گناہوں کی ترغیبات سامنے آتی ہیں جن کا مقابلہ صبر  ہی سے ہو سکتا ہے۔ بے شمار مواقع زندگی میں ایسے پیش آتے ہیں جن میں خدا کے قانون کی پیروی کی جائے تو نقصانات ، تکالیف، مصائب ، اور محرومیوں سے سابقہ پڑتا ہے اوراس کے برعکس نافرمانی کی راہ اختیار کی جائے تو فا ئدے اور لذّتیں حاصل ہوتی نظر آتی ہیں۔ صبر کے بغیر ان مواقع سے کوئی مومن بخیریت نہیں گزر سکتا۔ پھر ایمان کی راہ اختیار کرتے ہی آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال، اپنے خاندان، اپنے معاشرے ، اپنے ملک و قوم، اور دنیا بھر کے شیاطینِ جنّ و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ  راہ خدا میں ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ ان سب حالات میں صبر ہی کی صفت آدمی کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ ایک ایک مومن اکیلا اکیلا  اس شدید امتحان میں پڑ جائے تو ہر وقت شکست کھا جانے کے خطرے سے دوچار ہو گا اور مشکل ہی سے کامیاب ہو سکے گا۔ بخلاف اِس کے اگر ایک مومن معاشرہ ایسا موجود ہو جس کا ہر فرد خود بھی صابر ہو اور جس کے سارے افراد ایک دوسرے کو صبر کے اِس ہمہ گیر امتحان میں سہارا دے رہے ہوں تو کامرانیاں اُس معاشرے کے قدم چومیں گی۔ بدی کے مقابلے میں ایک بے پناہ طاقت پیدا ہو جائے گی۔ انسانی معاشرے کو بھلائی کے راستے پر لانے کے لیے ایک زبردست لشکر تیار ہو جائے گا۔
رہا رحم ، تو اہلِ ایمان کے معاشرے کی امتیازی شان  یہی ہے کہ وہ ایک سنگدل، بے رحم اور ظالم معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ انسانیت کے لیے رحیم و شفیق اور آپس میں ایک دوسرے کا ہمدرد و غمخوار معاشرہ ہوتا ہے۔ فرد کی حیثیت سے بھی ایک مومن اللہ کی شان ِ رحیمی کا مظہر ہے، اور جماعت کی حیثیت سے بھی مومنوں کا گروہ خدا کے اُس رسول کا نمائندہ  ہے جس کی تعریف میں فرمایا گیا ہے کہ  وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(الانبیاء۔۱۰۶)۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑھ کر جس بلند اخلاقی صفت کو اپنی امّت میں فروغ دینے کی کوشش فرمائی ہے وہ  یہی رحم کی صفت ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے حسب ذیل ارشادات ملاحظہ  ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں اس کی کیا اہمیت تھی۔ حضرت جَرِیر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا یر حمُ اللہ ُ من لا یرحمُ النَّاسَ (بخاری و مسلم)
اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔
          حضرت عبد اللہ بن ؓ عَمْروبن العاص کہتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا:
الراحمون یرحمہم الرحمٰن ۔ ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء۔ (ابوداؤد، ترمذی)
رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے ۔ زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
          ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
لیس منّا من لم یر حم صغیر نا ولم یُوقِّر کبیرنا (ترمذی)
وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھائے اور ہمارے بڑے کی توقیر نہ کرے۔
          ابو داؤد نے حضور ؐ کے اس ارشاد کو حضرت عبد ؓ اللہ بن عَمْرو کے حوالہ سے یوں نقل کیا ہے:
من لم یرحم صغیرنا و یعرف حق کبیرنا فلیس منّا۔(ابوداؤد)
جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھایا اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
          حضرت ابوہریرہ ؓ  کہتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم صاد ق و مصدق صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سُنا ہے:
لا تُنزع الرّحمۃُ الا مِن شقیٍّ (مسند احمد، ترمذی)
بدبخت آدمی کے دل ہی سے رحم سلب کر لیا جاتا ہے۔
          حضرت عِیاض ؓ بن حِماد کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا تین قسم کے آدمی جنّتی ہیں۔ ان میں سے ایک:
رجل رحیم رقیق القلب لکل ذی قربیٰ و مسلم (مسلم)
وہ شخص ہے جو ہر رشتہ دار اور ہر مسلمان کے لیے رحیم اور رقیق القلب ہو۔
          حضرت نعمان ؓ بن پشیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تری المؤمنین و تراحمہم و توادّ ھم و تعا طفہم کمثل الجسد اذا اشتکٰی عضوًا تداعیٰ لہ سائر الجسد بالسَّھْر و الحمّٰی (بخاری و مسلم)                 
تم مومنوں کو آپس  کے رحم اور محبت اور ہمدردی کے معاملہ میں ایک جسم کی طرح  پاؤ گے کہ اگر ایک عضو میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی خاطر بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
          حضرت ابو موسیٰ ؓ اشعری کہتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا:
المؤمن للمؤمن کالبنیان یشدّ بعضہ بعضًا (بخاری و مسلم)
مومن دوسرے مومن کے لیے اُس دیوار کی طرح ہے جس کا ہر حصّہ دوسرے حصّے کو مضبوط کرتا ہے۔
          حضرت عبداللہ ؓ بن عُمر حضور ؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
المسلم اخو المسلم لا یظلمہ ولا یُسلمہ و من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ و من فرّج عن مسلم کُرْ بۃً فرّج اللہ عنہ کربۃً من کُرُبات یوم القامۃ و من ستر مسلمًا سترہ اللہ یوم القیامۃ (بخاری و مسلم)
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،  نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کی مدد سے باز رہتا ہے ۔ جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے میں لگا ہو  گا اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو کسی مصیبت سے نکالے گا اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت سے نکال دے گا ، اور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا اللہ قیامت کے روز اس کی عیب پوشی کرے گا۔

          اِن ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک اعمال کرنے والوں کو ایمان لانے کے بعد اہلِ ایمان کے گروہ میں شامل ہونے کی جو ہدایت قرآن مجید کی اِس آیت میں دی گئی ہے اُس سے کس قسم کا معاشرہ بنانا مقصود ہے۔