اس رکوع کو چھاپیں

سورة البلد حاشیہ نمبر۲

یعنی شہرِ مکّہ  کی۔ اس مقام پر یہ بات کھولنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اِس شہر کی قسم کیوں کھائی جا رہی ہے۔ اہلِ مکّہ اپنے شہر کا پَس منظر خود جانتے تھے کہ کس طرح ایک بے آب و گیاہ وادی میں سُنسان پہاڑوں کے درمیان حضرت ابراہیم ؑ  نے اپنی ایک بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو یہاں لا کر بے سہار ا چھوڑ ا، کس طرح یہاں ایک گھر بنا کر ایسی حالت میں حج کی منادی کی جب کہ دور دور تک کوئی  اُس منادی کا سننے والا نہ تھا، اور پھر کس طرح یہ شہر آخر کار تمام عرب کا مرکز بنا اور ایسا حرم قرار پایا کہ صدہا برس تک عرب کی سرزمینِ بے آئین میں اِس کے سوا امن کا کوئِ مقام نہ تھا۔