اس رکوع کو چھاپیں

سورة البلد حاشیہ نمبر۳

اصل میں الفاظ ہیں  اَنْتَ حِلٌّمبِھٰذَ ا الْبَلَدِ۔ اِس کے تین معنی مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اِس شہر میں مقیم ہیں اور آپ کے مقیم ہونے سے اِس کی عظمت میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگرچہ یہ شہر حرم  ہے مگر ایک وقت آئے گا جب کچھ دیر کے لیے یہاں جنگ کرنا اور دشمنانِ دین کو قتل کرنا آپ کے لیے حلال ہو جائے گا۔ تیسرے یہ کہ اِس شہر میں جنگل کے جانوروں تک کو مارنا  اور درختوں تک کو کاٹنا اہلِ عرب کے نزدیک حرام ہے اور ہر ایک کو یہاں امن میسّر ہے ، لیکن حال یہ ہوگیا ہے کہ اے نبی ؐ ، تمہیں یہاں کوئی امن نصیب نہیں ، تمہیں ستانا اور تمہارے قتل کی تدبیریں کرنا حلال کر لیا گیا ہے۔ اگرچہ الفاظ میں تینوں معنوں کی گنجائش ہے ، لیکن جب ہم آگے کے مضمون پر غور کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ پہلے دو معنی اُس سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے اور تیسرا مفہوم ہی اُس سے میل کھاتا ہے۔