اس رکوع کو چھاپیں

سورة البلد حاشیہ نمبر۵

یہ ہے وہ بات جس پر قسمیں کھائی گئی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔ انسان کے مشقت میں پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اِس دنیا میں مزے کرنے اور چین کی بنسری بجانے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اُس کے لیے  یہ دنیا محنت اور مشقت اور سختیاں جھیلنے کی جگہ ہے اور کوئی انسان بھی اِس حالت سے گزرے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ شہر مکّہ گواہ ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے اپنی جان کھپائی تھی تب یہ بسا اور عرب کا مرکز بنا ۔ اِس شہر مکّہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت گواہ ہے کہ وہ ایک مقصد کے لیے طرح طرح کی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں، حتیٰ کہ یہاں جنگل کے جانوروں کے لیے امان ہے مگر اُن کے لیے نہیں ہے۔  اور ہر انسان کی زندگی ماں کے پیٹ میں نطفہ قرار پانے سے لے کر موت کے آخری سانس تک اِس بات کی گواہ ہے کہ اُس کو قدم قدم پر تکلیف، مشقّت، محنت، خطرات اور شدائد کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ جس کو تم بڑی سے بڑی قابلِ رشک حالت میں دیکھتے ہو وہ بھی  جب ماں  کے پیٹ میں تھا تو  ہر وقت اس خطرے میں مبتلا تھا کہ  اندر ہی مرجائے یا اُس کا اسقاط ہو جائے۔ زچگی کے وقت اُس کی موت اور زندگی کے درمیان بال بھر سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ پیدا ہوا تو اِتنا بے بس تھا کہ کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہوتا تو پڑے پڑے ہی سِسک سِسک کر مر جاتا۔ چلنے کے قابل ہوا تو قدم قدم پر گِرا پڑتا تھا۔ بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک ایسے ایسے جسمانی تغیُّرات سے اس کو گزرنا پڑا کہ  کوئی  تغیُّر بھی اگر غلط سمت میں ہو جاتا تو اس کی جان کے لالے پڑ جاتے۔ وہ اگر بادشاہ یا ڈکٹیٹر بھی ہے تو کسی وقت اِس اندیشے سے اُس کو چین نصیب نہیں ہے کہ کہیں اس کے خلاف کوئی سازش نہ ہو جائے۔ وہ اگر فاتح عالم بھی ہے تو کسی وقت اِس خطرے سے امن میں نہیں ہے کہ اس کے اپنے سپہ سالاروں میں سے کوئی بغاوت نہ کر بیٹھے۔ وہ اگر اپنے وقت کا قارون بھی ہے تو اس فکر میں ہر وقت غلطاں و پیچاں ہے کہ اپنی دولت کیسے بڑھائے اور کس طرح اس کی حفاظت کرے ۔ غرض کوئی شخص بھی بے غَل و غَش چَین کی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہے ، کیونکہ انسان پیدا ہی مشقّت میں کیا گیا ہے۔