اس رکوع کو چھاپیں

سورة البلد حاشیہ نمبر۷

اَنْفَقْتُ مَالًا لُّبَداً  ”میں نے ڈھیر سا مال خرچ کر دیا“ نہیں کہا بلکہ اَھْلَکْتُ مَالاً لُّبَداً کہا جس کے لفظی معنی ہیں”میں نے ڈھیر سا مال ہلاک کر دیا“،یعنی لُٹا دیا ، یا اڑا دیا۔ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ کہنے والے کو اپنی مال  داری پر کتنا فخر تھا کہ جو ڈھیر سا مال اُس نے خرچ کیا وہ اُس کی مجموعی دولت کے مقابلے میں اتنا ہیچ تھا کہ اس کے لُٹا دینے یا اڑا دینے کی اُسے کوئی  پروا نہ تھی۔ اور یہ مال اڑا دینا تھا کس مد میں؟ کسی حقیقی نیکی کے کام میں نہیں، جیسا کہ آگے کی آیات سے خود بخود مترشح ہوتا ہے، بلکہ اپنی دولت مندی کی نمائش اور اپنے فخر اور اپنی بڑائی کے اظہار میں۔ قصیدہ گو شاعروں کو بھاری انعامات دینا۔ شادی اور غمی کی رسموں میں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی دعوت کر ڈالنا۔ جوے میں ڈھیروں دولت ہار دینا۔ جُو جیت جانے پر اونٹ پر اونٹ کاٹنا اور خوب یار دوستوں کو کھلانا ۔ میلوں میں بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ جانا اور دوسرے سرداروں سے بڑھ کر شان و شوکت کا مظاہرہ کرنا۔ تقریبات میں بے تحاشا کھانے پکوانا اور اِذن عام دے دینا کہ جس کا جی چاہے آئے اور کھائے، یا اپنے ڈیرے پر کھُلا لنگر جاری رکھنا کہ دور دور تک یہ شہرت ہو جائے کہ فلاں رئیس کا دستر خوان بڑا وسیع ہے۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے نمائشی اخراجات تھے جنہیں جاہلیت میں آدمی کی فیاضی اور فراخ دلی کی علامت اور اس کی بڑائی کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ انہی پر ان کی تعریفوں کے ڈنکے بجتے تھے۔ انہی پر ان کی مدح کیے قصیدے پڑھے جاتے تھے۔ اور وہ خود بھی ان پر دوسروں کے مقابلے میں اپنا فخر جتاتے تھے۔