اس رکوع کو چھاپیں

سورة الیل حاشیہ نمبر۱۰

یہ اُس پرہیز گار آدمی کے خلوص کی مزید توضیح ہے  یہ وہ اپنا مال جن لوگوں پر صرف کرتا ہے اُن کا کوئی احسان پہلے سے اُس پر نہ تھا  کہ وہ اُس کا بدلہ چُکانے کے لیے ، یا آئندہ اُن سے مزید فائدہ اُٹھانے کے لیے اُن  کو ہدیے اور تحفے دے رہا ہو اور اُن کی دعوتیں کر رہا ہو، بلکہ وہ اپنے ربّ ِ برتر کی رضا جوئی کے لیے ایسے لوگوں کی مدد کر رہا ہو جن کا نہ پہلے اُس پر کوئی احسان تھا، نہ آئندہ ان سے وہ کسی احسان کی توقع رکھتا ہے۔ اِس کی بہترین مثال حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل ہے کہ مکّۂ معظمہ میں جن بے کس  غلاموں اور لونڈیوں نے اسلام قبول کیا تھا اور اِس قصور میں جن کے مالک اُن پر بے تحاشا ظلم توڑ رہے تھے ، اُن کو خرید خرید کر وہ آزاد کر دیتے تھے تا کہ وہ اُن کے ظلم سے بچ جائیں۔ ابن جَریر اور ابن عَسا کِر نے حضرت عامر بن عبد اللہ بن زُبَیر کی یہ روایت نق کی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ  کواس طرح اِن غریب غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی پر روپیہ خرچ کرتے دیکھ کر اُن کے والد نے اُن سے کہا کہ بیٹا، میں دیکھ رہا  ہوں کہ تم کمزور لوگوں کو آزاد کر  رہے ہو۔ اگر مضبوط جوانوں کی آزادی پر تم یہی روپیہ خرچ کرتے تو وہ تمہارے لیے قوت ِ بازو بنتے۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ   نے اُن سے کہا   ای ابہ انما ارید ما عند اللہ، ”اباجان، میں تو وہ اجر  چاہتا ہوں جو  اللہ کے ہاں ہے“۔