اس رکوع کو چھاپیں

سورة الیل حاشیہ نمبر۴

یہ انسانی مساعی کی دوسری قسم ہے جو اپنے ہر جُز میں پہلی قسم کے ہر جُز سے مختلف ہے۔ بُخل سے مُراد محض وہ بخل نہیں ہے جس کے لحاظ سے عام طور پر لوگ اُس آدمی کو بخیل کہتے ہیں جو روپیہ  جوڑ جوڑ کر رکھتا ہے اور اسے نہ اپنے اوپر خرچ کرتا ہے نہ اپنے بال بچوں پر، بلکہ اِس جگہ بخل سے مراد راہِ خدا میں اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مال صرف نہ کرنا ہے اور اس لحاظ سے وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنی ذات پر، اپنے عیش و آرام پر، اپنی دلچسپیوں  اور تفریحوں پر تو خوب دل کھول کر مال لٹاتا ہے ، مگر کسی نیک کام کے لیے اس کی جیب سے کچھ نہیں نکلتا ، یا اگر نکلتا  بھی ہے  تو یہ دیکھ  کر نکلتا ہے کہ  اس کے بدلے میں اس کو شہرت، نام و نمود، حُکّام رسی، یا کسی اور قسم کی منفعت  حاصل ہوگی۔ بے نیازی برتنے سے مراد یہ ہے کہ  آدمی دنیا کے مادّی فائدوں ہی کو اپنی ساری تگ و دو اور محنت و کوشش کا مقصود بنا لے اور خدا سے بالکل مستغنی ہو کر اس بات کی کچھ پروا نہ کرے کہ کس  کام سےوہ خوش اور کس کام سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ رہا بھلائی کر جُھٹلانا ، تو وہ اپنی تمام تفصیلات میں بھلائی کو سچ ماننے کی ضد ہے، اس لیے اس کی تشریح کی حاجت نہیں ہے ، کیونکہ بھلائی کی تصدیق کا مطلب ہم واضح کر چکے ہیں۔