اس رکوع کو چھاپیں

سورة الیل حاشیہ نمبر۸

اس ارشاد کے کئی مفہوم ہیں اور وہ سب صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا سے آخرت تک تم کہیں بھی ہماری گرفت سے باہر نہیں ہو، کیونکہ دونوں جہانوں کے ہم ہی مالک ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہماری مِلکیت دنیا اور آخرت دونوں پر بہر حال قائم ہے خواہ تم ہماری بتائی ہوئی راہ پر چلو یا نہ چلو۔ گمراہی اختیار کرو گے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑ و گے،، اپنا ہی نقصان کر لو گے ، اور راہِ راست اختیار کرو گے تو ہمیں کوئی نفع نہ پہنچاؤ گے ، خود ہی اس کا نفع اٹھاؤ گے۔ تمہاری نافرمانی سے ہماری مِلک میں کوئی کمی نہیں ہو سکتی اور تمہاری فرمانبرداری سے اُس میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا ۔ تیسرے یہ کہ دونوں جہانوں کے مالک ہم ہی ہیں۔ دنیا چاہو گے تو وہ بھی ہم ہی سے تمہیں ملے گی اور آخرت کی بھلائی چاہو گے تو اُ س کا دینا بھی ہمارے ہی اختیار میں ہے۔ یہی بات ہے  جو سورۂ آلِ عمران آیت ۱۴۵ میں فرمائی گئی ہے کہ وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْ تِہٖ مِنْھَا وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہ مِنْھَا۔ ” جو شخص ثوابِ دنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دیں گے اور جو ثوابِ آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا اس  کو ہم آخرت میں سے دیں گے“۔ اور اسی کو سورہ ٔ شوریٰ آیت۲۰ میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْلَہٗ فِیْ حَرثِہ وَمَنْ  کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْ تِہ مِنْھَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰ خِرَ ۃِ مِنْ نَّصِیْبٍ۔ ”  جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے  اس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصّہ نہیں ہے“۔( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل، آلِ عمران، حاشیہ ۱۰۵۔ جلد چہارم، الشوریٰ ، حاشیہ ۳۷)۔