اس رکوع کو چھاپیں

سورة الم نشرح حاشیہ نمبر۱

اِس سوال سے  کلام کا آغاز ، اور پھر بعد  کا مضمون یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس زمانے میں اُن شدید مشکلات پر سخت پریشان تھے جو دعوتِ اسلامی کا کام شروع کرنے کے بعد ابتدائی دور میں آپ کو پیش آرہی تھیں۔ اِن حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو مخاطَب کر کے تسلّی دیتے ہوئے فرمایا  کہ اے نبی، کیا ہم نے یہ اور یہ عنایات تم پر نہیں کی ہیں؟ پھر اِن ابتدائی مشکلات پر تم پریشان کیوں ہوتے ہو؟
سینہ کھولنے کالفظ قرآن مجید میں جن مواقع پر آیا ہے اُن  پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کے دو معنی ہیں۔ (۱) سورۂ اَنعام آیت ۱۲۵ میں فرمایا فَمَنْ یُّرِدِ اللہُ اَنْ یَّھْدِ یَہ ٗ یَشْرَحْ صَدْ رَ ہٗ لِلْاِسْلَامِ  ”پس جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے  اُ س کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔“  اور سورۂ زُمَر آیت ۲۲ میں فرمایا اَفَمَنْ شَرَ حَ اللہُ صَدْرَ ہٗ لَلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلیٰ نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہ ۔ ”تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو پھر وہ اپنے ربّ کی طرف سے ایک روشنی پر چل  رہا ہو ۔۔۔۔۔۔“۔ اِن دونوں مقامات پر شرح صدر سے مراد ہر قسم کے ذہنی خَلْجَان اور تردُّد سے پاک ہو کر اِس بات پر پوری طرح مطمٔن ہو جا نا ہے کہ اسلام کا راستہ ہی بر حق ہے اور وہی عقائد ، وہی اصولِ اخلاق و تہذیب و تمدّن، اور وہی احکام و ہدایات بالکل صحیح ہیں جو اسلام نے انسان کو دیے ہیں۔ (۲) سورۂ شُعراء آیت ۱۳-۱۲  میں ذکر آیا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ  کو جب اللہ تعالیٰ نبوت کے منصب ِ عظیم پر مامور کر کے فرعون اور اس کے عظیم سلطنت سے جا ٹکرا نے کا حکم دے رہا تھا تو انہوں نے عرض کیا رَبِّ  اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ وَیَضِیْقُ صَدْرِیْ۔ ”میرے رب، میں ڈرتا ہوں  کہ وہ  لوگ مجھے جھُٹلا دیں گے اور میرا سینہ تنگ  ہو رہا ہے۔“ اور سُورۂ طٰہٰ  آیات ۲۶-۲۵ میں بیان کیا گیا ہے کہ اِسی موقع پر حضرت موسیٰ ؑ  نے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگی کہ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ۔ ” میرے رب میرا سینہ میرے لیے کھول دے اور میرا کام میرے  لیے آسان کر دے۔“ یہاں سینے کی تنگی  سے مراد یہ ہے کہ نبوّت جیسے کارِ عظیم کا بار سنبھالنے اور تن تنہا کفر کی ایک جابر و قاہر طاقت سے ٹکّر لینے کی آدمی کو ہمّت نہ پڑ رہی ہو۔ اور شرحِ صدر سے مراد یہ ہے کہ آدمی کا حوصلہ بلند ہو جائے ، کسی بڑی سے بڑی مہم  پر جانے اور کسی سخت سے سخت کام کو انجام دینے میں بھی اسے تامُّل نہ ہو، اور  نبوّت کی عظیم ذمّہ داریاں سنبھالینے  کی اس میں ہمت پید اہو جائے۔
غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اِس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کھول دینے سے یہ دونوں معنی مراد ہیں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین عرب، نصاریٰ، یہود، مجوس، سب کے مذہب کو غلط سمجھتے تھے، اور حَنِیفیّت پر بھی مطمٔن نہ تھے جو عرب کے بعض قائلینِ توحید میں پائی جاتی تھی ، کیونکہ یہ ایک مبہم عقیدہ تھا  جس میں راہِ راست کی کوئ تفصیل نہ  ملتی تھی (اس کی تشریح  ہم تفہیم القرآن، جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ ۵ میں  کر چکے ہیں)، لیکن آپ کو چونکہ خود یہ معلوم نہ تھا کہ راہ ِ راست کیا ہے، اس لیے آپ سخت ذہنی خَلْجان میں مبتلا تھے۔ نبوّت عطا کر کے اللہ تعالیٰ نے آپ کے اِس خلجان کو دُور کر دیا اور  وہ راہ ِ راست کھول کر آپ کے سامنے رکھ دی جس سے آپ کو کامل اطمینان ِ قلب حاصل ہو گیا۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے اِ س کا مطلب یہ ہے کہ  نبوت عطا کر نے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ حوصلہ ، وہ ہمّت ، وہ اولو العزمی اور وہ وسعتِ قلب عطا فر مادی جو اِس منصبِ عظیم کی ذمّہ داریاں سنبھالنے کے لیے درکار تھی۔ آپ اُس وسیع علم کے حامل ہو گئے جو آپ کے سوا کسی انسان کے ذہن میں سمانہ سکتا  تھا۔ آپ کو وہ حکمت نصیب ہو گئی جو بڑے سے بڑے بگاڑ کو دُور کرنے اور سنوا ر دینے کی اہلیت رکھتی تھی۔ آپ اِس قابل ہوگئے کہ حاہلیت  میں مستغرق اور جہالت کے اعتبار سے انتہائی اکھّڑ معاشرے میں کسی سروسامان اورظاہراً کسی پُشت پنا ہ طاقت کی مدد کے بغیر اسلام کے علمبردار بن کر کھڑے ہو جائیں، مخالفت اور دشمنی  کے  کسی بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کرنے سے نہ ہچکچائیں ، اس راہ میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی پیش آئیں ان کو صبر کے ساتھ برداشت  کر لیں، اور کوئی طاقت آپ کو اپنے موقف سے نہ ہٹا سکے ۔ یہ شرحِ صدر کی بیش بہا دولت جب اللہ نے آپ کو عطا کر دی ہے تو آپ اُن مشکلات پر دل گرفتہ کیوں ہوتے ہیں جو آغازِ کار کے اِس مرحلے میں پیش آرہی ہیں۔

بعض مفسرین نے شرح صدر کو شقّ ِ صدر کے معنی میں لیا ہے اور اس آیت کو اُس معجزہْ شقِّ صدر کا ثبوت قرار دیا ہے جو احادیث کی روایات میں بیان ہوا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معجزے کے ثبوت کا مدار احادیث کی روایات ہی پر ہے۔ قرآن سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان کے لحاظ سے شرح ِ صدر کو کسی طرح بھی شقِّ صدر کے معنی  میں نہیں لیا جا سکتا ۔ علامۂ آلوسی  روح المعانی میں فرما تے ہیں کہ حمل الشرح فی الاٰ یۃ علیٰ شق الصدر ضعیف عند المحققین  ”محققین کے نزدیک اس آیت میں شرح کو شقِّ صدر پر  محمول کرنا ایک کمزور بات ہے۔“