اس رکوع کو چھاپیں

سورة الم نشرح حاشیہ نمبر۲

مفسرین میں سے بعض نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ نبوّت  سے پہلے ایّام جاہلیّت میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ قصور ایسے ہوگئے تھے جن کی فکر آپ کو سخت گراں گزر رہی تھی اور یہ آیت نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مطمٔن کر دیا کہ آپ کے وہ قصور ہم نے معاف کر دیے۔ لیکن ہمارے نزدیک  یہ معنی لینا سخت غلطی ہے۔  اول تو لفظ وزْر کے معنی لازمًا گناہ  ہی کے نہیں ہیں بلکہ یہ لفظ بھاری بوجھ کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کوخواہ مخواہ بُرے معنی میں لیا جائے۔ دوسرے حضور ؐ کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی اس قدر پاکیزہ تھی کہ قرآن میں مخالفین کے سامنے اُس کو ایک چیلنج کے طور پر پیش کیاگیا تھا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کفّار  کو مخاطب کر کے یہ کہوایا گیا کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عّمْراً مِّنْ قَبْلِہ ۔ ” میں اِس قرآن کو پیش کرنے سے پلے تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں“(یونس آیت ۱۶)۔  اور حضور ؐ اِس کردار کے انسان بھی نہ تھے کہ لوگوں سے چھُپ کر آپ ؐ نے کوئی گناہ کیا ہو۔ معاذ اللہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ تو اُس سے ناواقف نہ ہو سکتا تھا کہ جو شخص کوئی چھُپا ہوا داغ اپنے دامن پر لیے ہوئے ہوتا اُس سے خلقِ خدا کے سامنے برملا وہ بات کہواتا جو سورۂ یونس کی مذکورۂ بالا آیت میں اس نے کہوائی ہے۔ پس درحقیقت اِ س آیت میں وِزْر کے صحیح معنی بھاری بوجھ کے ہیں اور اس سے مراد رنج و غم اور فکر و پریشانی کا وہ بوجھ ہے جو اپنی قوم کی جہالت و جاہلیت کو دیکھ دیکھ کر آپ کی حسّاس طبیعت پر پڑ رہا تھا۔ آپ کے سامنے بُت پُوجے جا رہے تھے ۔ شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم کا بازار گرم تھا۔ اخلا ق کی گندگی اور بے حیائی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی ۔ معاشرت میں ظلم اور معاملات میں فساد عام تھا۔ زور داروں  کی زیادتیوں سے بے زور پِس  رہے تھے۔ لڑکیاں زندہ دفن کی جا رہی تھیں۔ قبیلوں پر قبیلے چھاپے  مار رہے تھے اور بعض اوقات سَو سَو برس تک انتقامی لڑائیوں کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ کسی کی جان، مال اور آبرو محفوظ نہ تھی جب تک کہ اس کی پشت پر کوئی مضبوط جتّھا نہ ہو۔  یہ حالت دیکھ کر آپ کُڑھتے تھے مگر اِس بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی صورت آپ کو نظر نہ آتی تھی۔ یہی فکر آپ کی کمر توڑ ڈال رہی تھی جس کا بارِ گراں اللہ تعالیٰ  نے ہدایت کا راستہ دکھا کر آپ کے اوپر سے اتار دیا اور نبوّت کے منصب پر سرفراز ہوتے ہی آپ کو معلوم ہو گیا کہ توحید اور آخرت اور رسالت پر ایمان ہی وہ شاہ کلید ہے جس سے انسانی زندگی کے ہر بگاڑ کا قفل کھولا جا سکتا ہے اور سزندگی کے ہر پہلو میں اصلاح کا راستہ صاف کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اِس رہنمائی نے آپ کے ذہن کا سارا بوجھ ہلکا کر دیا اور آپ پوری طرح مطمٔن ہو گئے کہ اِس ذریعہ سے آپ نہ صرف عرب بلکہ پوری نوع انسانی کو اُن خرابیوں سے نکال سکتے ہیں   جن میں اُس وقت عرب سے باہر کی بھی ساری دنیا مبتلا تھی۔