اس رکوع کو چھاپیں

سورة التین حاشیہ نمبر۱

اِس کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہوا ہے۔ حسن بصری، عِکْرِمہ، عطا ء بن ابی رَبَاح، جابر بن زید، مجاہد اور ابراہیم نَخَعی رحمہم اللہ کے انجیر سے مراد یہی انجیر ہے جسے لوگ کھاتے ہیں اور زیتون بھی یہی زیتون ہے جس سے تیل نکالا جاتا ہے۔ ابنِ ابی حاتم اور حاکم نے ایک قول حضرت عبداللہ ؓ  بن عباس سے بھی اس کی تائید میں نقل کیا ہے اور جن مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے انہوں نے انجیر اور زیتون کے خواص اور فوائد بیان کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہی خوبیوں کی وجہ سے اِن دونوں پھلوں کی قسم کھائی ہے ۔ اِس میں شک نہیں کہ ایک عام عربی داں تین اور  زیتون کے الفاظ سُن کر وہی معنی لے گا جو عربی زبان میں معروف ہیں۔ لیکن دو وجوہ ایسے ہیں جو یہ معنی لینے میں مانع ہیں۔ ایک یہ کہ آگے طورِ سینا اور شہرِ مکّہ کی قسم کھائی گئی ہے، اور دوپھلوں کے ساتھ دو مقامات کی قسم کھانے میں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی۔ دوسرے اِن چار چیزوں کی قسم کھا کر آگے جو مضمون بیان کیا گیا ہے اُس پر طورِ سینا اور شہرِ مکّہ تو دلالت کرتے ہیں، لیکن یہ دو پھل اُس پر دلالت نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں بھی کسی چیز کی قسم کھائی ہے ، اُس کی عظمت یا اُس کے منافع کی بنا پر نہیں کھائی، بلکہ ہر قسم اُس مضمون پر دلالت کرتی ہے جو قسم کھانے کے بعد بیان کیا گیا ہے۔ اِس لیے اِن دونوں پھلوں کے خواص کی وجہ قسم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بعض دوسرے مفسرین نے تین اور زیتون سے مراد بعض مقامات لیے ہیں ۔ کَعْبِ اَحبار، قَتادہ اور ابنِ زید کہتے ہیں تین سے مراد دمشق ہے اور زیتون سے مراد بیت المقدس۔ ابنِ عباس ؓ کا ایک قول  ابن جریر، ابنِ ابی حاتم اور ابنِ مردویہ نے یہ نقل کیا ہے کہ تین سے مراد حضرت نوح ؑ کی وہ مسجد ہے جو انہوں نے جُودی پہاڑ پر بنائی تھی اور زیتون سے مراد بیت المقدس ہے۔ لیکن وَالتِّیْنِ و َالزَّیْتُوْنِ کے الفاظ سُن کر یہ معنی ایک عام عرب کے ذہن میں نہیں آسکتے تھے اور نہ یہ بات قرآن کے مخاطب اہلِ عرب میں معروف تھی کہ تین اور زیتون اِن مقامات کے نام ہیں۔

البتہ یہ طریقہ اہلِ عرب میں رائج تھا کہ جو پھل کسی علاقے میں کثرت پیدا ہوتا ہے اُس علاقے کو وہ بسا اوقات اُس پھل کے نام سے موسوم کر دیتے تھے۔ اِس محاورے کے لحاظ سے تین اور زیتون کے الفاظ کا مطلب مَنابتِ تین و زیتون ، یعنی اِن پھلوں کی پیداوار کا علاقہ ہو سکتا ہے، اور شام و  فلسطین کا علاقہ ہے ، کیونکہ اُس زمانے کے اہلِ عرب میں یہی علاقہ انجیر و زیتون کی پیداوار کے لیے مشہور تھا۔ ابنِ تیمیہ ، ابنِ القَیِّم، زَمَحْشَری اور آلُوسی رحمہم اللہ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے ۔ اور ابن جریر نے بھی اگرچہ پہلے قول کو ترجیح دی ہے، مگر اِس کے ساتھ یہ بات تسلیم کی ہے کہ تین اور زیتون سے مراد ان پھلوں کی پیداوار  کا علاقہ بھی ہو سکتا ہے۔ حافظ ابنِ کثیر نے بھی اِس تفسیر کو قابل لحاظ سمجھا ہے۔