اس رکوع کو چھاپیں

سورة العلق حاشیہ نمبر۱۰

بندے سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس طریقے سے حضور ؑ کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً سُبْحٰنَ الّذیٰ اَسْرٰی بِعَبْدِہ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاقْصٰے(بنی اسرائیل۔۱)”پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی کی طرف“۔اَلْحَمْدُ لِلّہِ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلیٰ عَبْدِہِ الکِتٰبَ(الکہف۔۱)”تعریف ہے اُس خدا کے لیے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی“۔وَاِنَّہُ لَمَا قَامَ عَبْدُ اللہِ یَدْعُوْہُ کَادُوْ ا یَکُوْ نُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا(الجن۔۱۹) ”اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اُس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہو ا تو  لوگ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیّار ہوگئے۔“ اس سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ ایک خاص محبت کا انداز ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنی آناب میں اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتا ہے۔ علاوہ بریں اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے منصب پر سرفراز فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے کا طریقہ سکھا دیا تھا۔ اُس طریقے کا  ذکر قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے کہ اے نبی تم اِس طرح نماز پڑھا کرو۔ لہٰذا یہ اِس امر کا ایک  اور ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف وہی  وحی نازل نہیں ہوتی  تھی جو قرآن مجید میں درج ہے، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپ کو ایسی باتوں کی تعلیم دی جاتی تھی جو قرآن مجید میں درج نہیں ہیں۔