اس رکوع کو چھاپیں

سورة العلق حاشیہ نمبر۶

یعنی انسان اصل میں بالکل بے علم تھا۔ اُسے جو کچھ بھی علم حاصل ہو ا اللہ کے دینے سے حاصل ہوا۔ اللہ ہی نے جس مرحلے پر انسان کے لیے علم کے جو دروازے کھولنے چاہے وہ اُس پر کُھلتے چلے گئے۔ یہی بات ہے جو آیۃ الکرسی میں اِس طرح فرمائی گئی ہے کہ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ءٍ مِنْ عِلْمِہٖٓ اِلّا بِمَاشَآءَ۔”اور لوگ اُس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے سوائے اُس کے جو وہ خود چاہے“(البقرہ۔۲۵۵) جن جن چیزوں کو بھی انسان اپنی علمی دریافت سمجھتا ہے، درحقیقت وہ پہلے اس کے علم نہیں نہ تھیں، اللہ تعالیٰ ہی نے جب چاہا اُن کا علم اُسے دیا بغیر اس کے کہ انسان یہ محسوس کرتا کہ یہ علم اللہ اُسے دے رہا ہے۔

یہاں تک وہ آیات ہیں جو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ  کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، یہ پہلا تجربہ اتنا سخت تھا کہ حضور ؑ اِس سے زیادہ کے متحمّل نہ ہو سکتے تھے۔ اس لیے اس وقت صرف یہ بتا نے پر اکتفا کیا گیا کہ وہ رب جس کو آپ پہلے سے جانتے اور مانتے ہیں، آپ سے براہ راست مخاطب ہے، اس کی طرف سے آپ پر وحی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، اور آپ کو اس نے اپنا نبی بنا لیا ہے۔ اِس کے ایک مدت بعد سورہ مدّثِّر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں آپ کو بتایا گیا کہ نبّوت پر مامور ہونے کے بعد اب آپ کو کام کیا کرنا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، المدّثِّر، دیباچہ)