اس رکوع کو چھاپیں

سورة القدر حاشیہ نمبر۲

مفسّرین نے بالعموم اس کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ  اس رات کا عملِ خیر ہزار مہینوں کے عملِ خیر سے افضل ہے جن میں سے شب قدر شمار نہ ہو۔ اِس میں شک نہیں  کہ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس رات کے عمل کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور ؐ  نے فرمایا من قام لیلۃ القدر ایمانًا واحتسابًا غفر لہ ماتقدم من ذنبہ ، ”جو شخص شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ کے اجر کی خاطر عبادت کے لیے کھڑا رہا اس کے تمام پچھلے گنا ہ معاف ہو گئے۔“ اور مُسند احمد میں حضرت عُبادہ بن صامِت کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ ”شب قدر رمضان کی آخری  دس راتوں میں ہے، جو شخص ان کے اجر کی  طلب میں عبادت کے لیے کھڑا رہا اللہ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے گا۔“ لیکن آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ العمل فی  لیلۃ القدر خیر من العمل فی الف شھر (شب قدر میں عمل کرنا ہزار مہینوں میں عمل کرنے سے بہتر ہے) بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ”شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔“ اور ہزار مہینوں سے مراد گِنے ہوئے ۸۳ سال شار مہینے نہیں ہیں بلکہ اہلِ عرب کا قاعدہ تھا کہ بری کثیر تعداد کا تصور دلانے کے لیے وہ ہزار کا لفظ بولتے تھے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اِس ایک رات میں خیر اور بھلائی کا اتنا  بڑا کام ہوا کہ کبھی انسانی تاریخ کے کسی طقیل زمانے میں بھی ایسا کام نہیں ہوا تھا۔