اس رکوع کو چھاپیں

سورة البینة حاشیہ نمبر۱

کفر میں مشترک ہونے کے باوجود ان دونوں گروہوں کو دو الگ الگ ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ اہلِ کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس پہلے انبیاء کی لائی ہوئی کتابوں میں سے کوئی کتاب، خواہ تحریف شدہ شکل ہی میں سہی، موجود تھی اور وہ اُسے مانتے تھے۔ اور مشرکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی نبی  کے پیرو اور کسی کتاب کے ماننے والے نہ تھے ۔ قرآن مجید میں اگرچہ اہلِ کتاب کے شِرک کا ذکر بہت سے مقامات پر کیا گیا ہے ۔ مثلاً عیسائیوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں کا ایک ہے(المائدہ، ۷۳)۔ وہ مسیح ہی کو خدا کہتے ہیں (المائدہ، ۱۷)۔ وہ مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں (التوبہ، ۳۰)۔ اور یہود کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ عُزَیر کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں( التوبہ، ۳۰) ۔ لیکن اس کے باوجود قرآن مجید میں کہیں اُن کے لیے  ”مشرک“ کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی بلکہ ان کا ذکر اہلِ کتاب یا  اَلَّذِیْنَ اُوْتُوْ الْکِتٰبَ (جن کو کتاب دی گئی تھی)، یا یہود اور نصاریٰ کے الفاظ سے کیا گیا ہے ، کیونکہ وہ اصلِ دین توحید ہی کو مانتے تھے اور پھر شرک کرتے تھے۔ بخلاف اِس کے غیر اہل ِ کتاب کے لیے ”مشرک“ کا لفظ بطور اصطلاح استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ اصلِ دین شرک ہی کو قرار دیتے  تھے اور توحید کے ماننے سے اُن کو قطعی انکار تھا۔ یہ فرق اِن دونوں گروہوں کے درمیان صرف اصطلاح ہی میں نہیں بلکہ شریعت  کے احکام میں بھی ہے۔ اہلِ کتاب کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال کیا گیا ہے اگر وہ اللہ کا نام لے کر حلال جانور کو صحیح طریقہ سے ذبح کریں، اور ان کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے برعکس مشرکین کا نہ ذبیحہ حلال ہے اور نہ ان کی عورتوں سے نکاح حلال۔