اس رکوع کو چھاپیں

سورة البینة حاشیہ نمبر۶

یعنی اِس سے پہلے اہلِ کتاب جو مختلف گمراہیوں میں بھٹک کر بے شمار فرقوں میں بٹ گئے  اُس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے اُن کی رہنمائی کے لیے دلیلِ روشن بھیجنے میں کوئی کَسر اٹھا  رکھی تھی، بلکہ یہ روِش اُنہوں نے اللہ کی جانب سے رہنمائی آجانے کے بعد اختیار کی تھی، اس لیے اپنی گمراہی کے وہ خود ذمہ دار تھے، کیونکہ ان پر حجّت تمام کی جا چکی تھی۔ اِسی طرح اب چونکہ اُن کے صحیفے پاک نہیں رہے ہیں  اور ان کی کتابیں بالکل راست اور درست تعلیمات پر مشتمل نہیں رہی ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دلیلِ روشن کی حیثیت سے اپنا ایک رسول بھیج کر اور اس کے ذریعہ سے پاک صحیفے بالکل راست اور درست تعلیمات پر مشتمل پیش کر کے ان پر پھر حجت تمام کر تی ہے ، تاکہ اس کے بعد بھی اگر وہ متفرِّق رہیں تو اس کی ذمہ داری اُنہی پر ہو، اللہ کے مقابلہ میں وہ کوئی حجّت پیش  نہ کر سکیں۔ یہ بات قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر فرمائی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، البقرہ، آیات ۲۵۳-۲۱۳۔ آلِ عمران، ۱۹۔ المائدہ،۴۴ تا ۵۰۔ یونس، ۹۳۔ الشوریٰ، ۱۳ تا ۱۵۔ الجاثیہ، ۱۶ تا ۱۸۔ اس کے ساتھ اگر وہ حوا شی بھی پیشِ نظر رکھے جائیں جو تفہیم القرآن میں اِن آیات پر ہم نے لکھے ہیں تو بات  سمجھنے میں مزید آسانی ہو گی۔