اس رکوع کو چھاپیں

سورة البینة حاشیہ نمبر۷

یعنی جس دین کو اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں ، اِسی دین کی تعلیم اہلِ کتاب کو اُن کے ہاں آنے والے انبیاء اور ان کے ہاں نازل ہونے والی کتابوں نے دی تھی، اور اُن عقائد ِ باطلہ اور اعمالِ فاسدہ میں سے کسی چیز کا اُنہیں حکم نہیں دیا گیا تھا جنہیں اُنہوں نے بعد میں اختیار کر کے مختلف مذاہب بنا ڈالے۔ صحیح اور درست دین ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ خالص اللہ بندگی کی جائے ، اُس کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی کی آمیزش نہ کی جائے، ہر طرف سے رُخ پھیر کر انسان صرف ایک اللہ کا پرستار اور تابعِ فرمان بن جائے، نماز قائم کی جائے، زکوٰۃ ادا کی جائے(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم ، الاعراف، حاشیہ ۱۹۔ یونس، حواشی ۱۰۹-۱۰۸۔ جلد سوم، الروم، حواشی ۴۳ تا ۴۷۔ جلد چہارم، الزُّمر، حواشی ۴-۳)۔

اس آیت میں دین القیّمۃ کے جو الفاظ آئے ہیں ان کو بعض مفسرین نے دِیْن الملّۃ القیّمۃ یعنی ”راست رو ملّت کا دین“ کے معنی میں لیا ہے اور بعض  اسے اضافتِ صفت الی الموصوف قرار دیتے ہیں اور قیّمۃ کی   ہ  کو علّامہ اور فہّامَہ کی طرح مبالغہ کی ہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کے معنی وہی ہیں جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کیے ہیں۔