اس رکوع کو چھاپیں

سورة الزلزال حاشیہ نمبر۱

اصل الفاظ ہیں زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَا لَھَا ۔ زلزلہ کے معنی پے در پے زور زور سے حرکت کرنے کے ہیں۔ پس زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ کا مطلب یہ ہے کہ زمین کو جھٹکے  پر جھٹکے دے کر شدّت کے ساتھ ہلا ڈالا جائے گا۔ اور چونکہ زمین کو ہلانے کا ذکر کیا گیا ہے  ا س لیے اِس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ زمین کا کوئی مقام یا کوئی حصہ یا علاقہ نہیں بلکہ پوری  کی پوری زمین ہلا ماری جائے گی۔ پھر اس زلزلے کی مزید شدّت کو ظاہر کرنے کے لیے زِلْزَالَھَا کا اُس پر اضافہ  کیا گیا ہے جس کے لفظی معنی ہیں ” اُس کا ہلایا جانا۔“ اِس کا مطلب یہ ے کہ اُس کو ایسا ہلایا جائے گا جیسا اُس جیسے عظیم کُرے  کو ہلانے کا حق ہے ، یا جو اُس کے ہلائے جانے کی انتہائی ممکن شدّت  ہو سکتی ہے ۔ بعض مفسّرین نے اِس زلزلے سے مراد وہ پہلا زلزلہ لیا جس سے قیامت کے پہلے مرحلے کا آغاز ہو گا یعنی جب ساری مخلوق ہلاک ہو جائے گی اور دنیا کا یہ نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ لیکن مفسّرین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک اِس سے مراد وہ زلزلہ ہے جس سے قیامت کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گا ، یعنی جب تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ زندہ ہو کر اُٹھیں گے ۔ یہی دوسری تفسیر زیادہ صحیح ہے کیونکہ بعد کا سارا مضمون اِسی پر دلالت کرتا ہے۔