اس رکوع کو چھاپیں

سورة الزلزال حاشیہ نمبر۳

انسان سے مراد  ہر انسان بھی ہو سکتا ہے  ، کیونکہ زندہ ہو کر ہوش میں آتے ہی پہلا تأثُّر ہر شخص پر یہی ہو گا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے ، بعد میں اُس پر یہ بات کھلے گی کہ یہ روزِ حشر ہے۔ اور انسان سے مراد آخرت کا منکر انسان بھی ہو سکتا ہے ، کیونکہ جس چیز کو وہ غیر ممکن سمجھتا تھا وہ اس کے سامنے برپا ہو رہی ہو گی اور وہ اس پر حیران و پریشان ہو گا۔ رہے  اہلِ ایمان تو ان پر یہ حیرانی و پریشانی طاری نہ ہو گی، اس لیے کہ سب کچھ ان کے عقیدہ و یقین کے مطابق ہو رہا  ہو گا۔ ایک حد تک اِس دوسرے معنی کی تائید سورۂ یٰسین کی آیت ۵۲ کرتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ اُس وقت منکرین آخرت کہیں گے کہ مَنْم بَعَثَنَا مِنْ مَّرْ قَدِ نَا ”  کس نے ہماری خواب گاہ سے ہمیں اٹھا دیا؟ اور جواب ملے گا ھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّ حْمٰنُ وَصَدَ قَ الْمُرْسَلُوْنَ ” یہ وہی چیز ہے جس  کا خدائے رحمان نے وعدہ کیا تھا ارو خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں نے سچ کہا تھا۔“ یہ آیت اِس معاملہ میں صریح نہیں ہے کہ کافروں کو یہ جواب اہلِ ایمان ہی دیں گے ، کیونکہ آیت میں اس کی تصریح نہیں ہے، لیکن اس امر کا احتمال ضرور ہے کہ اہلِ ایمان کی طرف سے اُن کو یہ جواب ملے گا۔