اس رکوع کو چھاپیں

سورة الزلزال حاشیہ نمبر۴

حضرت ابو ہریرہ ؓ    کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر پوچھا ” جانتے ہو  اس کے وہ حالات کیا ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا  اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ فرمایا ” وہ حالات یہ ہیں کہ زمین پر بندے اور بندی کے بارے میں اُس عمل کی گواہی دے  گی جو اس کی پیٹھ پر اس نے کہا ہو گا۔ وہ کہے گی کہ اِ س نے فلاں دن فلاں کام کیا تھا۔ یہ ہیں وہ حالات جو زمین بیان کرے گی۔“(مُسند احمد ، تِرْمِذی، نَسائی، ابن جریر، عبد بن حُمید، ابن المُنْذر، حاکم، ابن مَرْدُوْیَہ، بِیْہَقی فی الشعب)۔  حضرت رَبیعۃ الخَرشی کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا ” ذرا زمین سے بچ کر رہنا  کیونکہ یہ تمہاری جڑ بنیا ہے اور اِس پر عمل کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے عمل کی یہ خبر نہ دے خواہ اچھا ہو یا بُرا“(مُعْجَم الطّبرَانی)۔ حضرت انس  بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت کے روز زمین ہر اُس عمل کو لے آئے گی جو اس کی پیٹھ پر کیا گیا ہو“ پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرمائیں(ابن مَرْدُوْیَہ ۔ بیہقی)۔ حضرت علی  کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ بیت المال  کا سب روپیہ اہلِ حقوق میں تقسیم کر کے اُسے خالی کر دیتے تو اس میں دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر فرماتے ”تجھے گواہی دینی ہو گی کہ میں نے تجھ کو حق کے ساتھ بھرا اور حق ہی  کے ساتھ خالی کر دیا“۔
زمین کے متعلق یہ بات کہ وہ قیامت کے راز اپنے اوپر گزرے ہوئے سب حالات اور واقعات بیان کر دے گی ، قدیم زمانے کے آدمی کے لیے تو بڑی حیران کُن ہو گی کہ آخر کیسے بولنے لگے گی، لیکن آج علومِ طبیعی کے اکتشافات اور سینما، لاؤڈاسپیکر، ریڈیو، ٹیلیویژن، ٹیپ ریکارڈر، الکٹرانِکس وغیرہ ایجادات کے اِس دور میں یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ زمین اپنے حالات کیسے بیان کرے گی۔ انسان  اپنی زبان سے جو کچھ بولتا ہے اُس کے نقوش ہوا میں، ریڈیائی لہروں میں ، گھروں کی دیواروں اور اُن کے فرش اور چھت کے ذرّے ذرّے میں، اور اگر کسی سڑک یا میدان یا کھیت میں آدمی نے بات کی ہو تو اُن سب کے ذرّات میں ثبت ہیں۔ اللہ تعالیٰ  جس وقت چاہے ان ساری آوازوں کو ٹھیک اسی طرح ان چیزوں سے دُہر وا سکتا ہے جس طرح کبھی وہ انسان کے منہ سے نکلی تھیں۔ انسان اپنے کانوں اُس وقت سن لے گا کہ یہ اُس کی اپنی ہی آواز یں ہیں۔ اور اس کے ساب جاننے والے پہچان لیں گے کہ جو کچھ وہ سُن رہے ہیں وہ اسی شخص کی آواز اور اسی کا لہجہ ہے۔ پھر انسان نے زمین پر جہاں جس حالت میں بھی کوئی کام کیا ہے اس کی ایک ایک حرکت کا عکس اُس کے گردو پیش کی تمام چیزوں پر پڑا ہے اور اس کی تصویر اُن پر نقش ہو چکی ہے۔ بالکل گھُپ اندھیرے میں بھی اُس نے کوئی فعل کیا ہو تو خدا کی خدائی میں ایسی شُعائیں موجود ہیں جن کے لیے اندھیرا اور اُجالا کوئی معنی نہیں رکھتا، وہ ہر حالت میں اس کی تصویر لے سکتی ہیں۔ یہ ساری تصویریں قیامت کے روز ایک متحرّک فلم کی طرح انسان کے سامنے آجائیں گی اور یہ دکھا دیں گی کہ وہ زندگی بھر کس وقت، کہاں کہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے۔

حقیقت  یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے اعمال کو براہِ راست خود جانتا ہے ، مگر آخرت میں جب وہ عدالت قائم  کرے گا  تو جس کو بھی سزا دے گا، انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے دے گا ۔ اُس کی عدالت میں ہر مجرم انسان کے خلاف جو مقدّمہ قائم کیا جائے گا اُس کو ایسی مکمّل شہادتوں سے ثابت کر دیا جائے گا کہ اس  کے مجرم ہونے میں کسی کلام کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ سب سے پہلے تو وہ نامۂ اعمال ہے جس میں ہر وقت اُس کے ساتھ لگے ہوئے کرامًا کاتبین اس کے ایک ایک قول اور فعل کا ریکارڈ درج کر رہے ہیں(قٓ، آیات ۱۸-۱۷۔ الانفِطار، آیات ۱۰ تا ۱۲)۔ یہ نامۂ اعمال  اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا  کارنامۂ حیات ، اپنا حساب لینے کے لیے تو خود کافی ہے(بنی اسرائیل۔۱۴)۔ انسان اسے پڑھ کر حیران رہ جائے گا کہ کوئی چھوٹی  یا بڑی چیز ایسی نہیں ہے جو اس میں ٹھیک ٹھیک درج نہ ہو(الکہف۔۴۹)۔ اِس کے بعد انسان کا  اپنا جسم ہے جس سے اُس نے دنیا میں کام لیا ہے۔  اللہ کی عدالت میں اُس کی اپنی زبان شہادت دے گی کہ اُس سے وہ کیا کچھ بولتا رہا ہے ،  اس کے اپنے ہاتھ پاؤں شہادت دیں گے کہ ان سے سے کیا کیا کام اُس نے لیے(النور۔۲۴)۔ اس کی آنکھیں شہادت دیں گی، اس کے کان شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کیا کچھ سُنا۔ اس کے جسم کی پوری  کھال اس کے افعال کی شہادت دے گی۔ وہ حیران ہوکر اپنے اعضا سے کہے گا کہ تم بھی میرے خلاف گواہی دے رہے ہو؟ اس کے اعضا جواب دیں گے کہ آج جس خدا کے حکم سے ہر چیز بول رہی ہے اسی کے حکم سے ہم بھی بول رہے ہیں(حٰم السجدہ۔۲۰ تا ۲۲)۔ اس پر مزید وہ شہادتیں ہیں جو زمین اوراس کے پورے ماحول سے پیش کی جائیں گی جن میں آدمی اپنی آوازیں خود اپنے کانوں سے، اور اپنی حرکات کی ہو بہو تصویریں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ انسان کے دل میں جو خیالات ، ارادے اور مقاصد چھپے ہوئے تھے، اور جن نیتوں کے ساتھ اس نے سارے اعمال کیے تھے وہ بھی نکال کر سامنے رکھ دیے جائیں گے ، جیسا کہ آگے سُورۂ عادیات میں آرہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اِتنے قطعی اور صریح اور ناقابلِ انکار ثبوت سامنے آجانے کے بعد انسان دم بخود رہ جائے گا اور اُس کے لیے اپنی معذرت میں کچھ کہنے کا موقع باقی نہ رہے گا( المرسلٰت، آیات ۳۶-۳۵)۔