اس رکوع کو چھاپیں

سورة الزلزال حاشیہ نمبر۵

اس کے دومعنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر  ایک اکیلا اپنی انفرادی حیثیت میں ہو گا، خاندان ، جتھّے، پارٹیاں، قومیں، سب بکھر جائیں گی۔ یہ بات قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی فرمائی گئی ہے ۔ مثلًا سورۂ انعام میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس روز لوگوں سے فرمائے گا کہ  ” لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہو گئے جیسا ہم نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا تھا“(آیت۹۴)۔ اور سورۂ مریم میں فرمایا  ”یہ اکیلا ہمارے پس آئے گا“(آیت۸۰) اور یہ کہ ”اِن میں سے ہر ایک قیامت کے روز اللہ کے حضور اکیلا حاضر ہو گا“(آیت ۹۵)۔ دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو ہزار ہا برس کے دوران میں جگہ جگہ مرے تھے، زمین کے گوشے گوشے سے گروہ در گروہ چلے آرہے ہو ں گے، جیسا کہ سورۂ نباء میں فرمایا گیا ”جس روز صور میں پھونک مار دی  جائے گی تم فوج در فوج آجاؤگے“(آیت ۱۸)۔ اس کے علاوہ جو مطلب مختلف مفسّرین نے بیان کیے ہیں اُن کی گنجائش لفظ اَشْتَا تًا میں نہیں ہے، اس لیے ہمارے نزدیک وہ اِس لفظ کے معنوی حدود سے باہر ہیں، اگرچہ بجائے خود صحیح ہیں اور قرآن  و حدیث  کے بیان کردہ احوالِ قیامت سے مطابقت رکھتے ہیں۔