اس رکوع کو چھاپیں

سورة الزلزال حاشیہ نمبر۶

ا س کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اُن کو اُن کے اَعمال دکھائے جائیں ، یعنی ہر ایک کو بتا یا جائے کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اُن کو ان کے اعمال کی جزاع دکھائی جائے۔ اگرچہ یہ دوسرے معنی بھی لِیُرَوْا اَعْمَالَہُمْ کے لیے جا سکتے ہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے لِیُرَوْ ا  جَزَآءَ اَعْمَالِہِمْ (تاکہ انہیں ان کے اعمال کی جزا دکھائی جائے) نہیں فرمایا ہے بلکہ لِیُرَوْ ا اَعْمَا لَہُمْ (تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں) فرمایا ہے۔ اس لیے پہلے معنی ہی قابل ترجیح ہیں ، خصوصًا جبکہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اِس کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ کافر و مومن ، صالح و فاسق، تابعِ فرمان اور نافرمان، سب کو اُن کے نامۂ اعمال ضرور دیے جائیں گے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو  الحاقَّہ، آیات۱۹ و ۲۵،  اور الانشقاق، آیات ۷ و ۱۰)۔ ظاہر ہے کہ کسی کو اُس کے اعمال دکھانے، اور اس کا نامۂ اعمال اس کے حوالہ کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ علاوہ بریں زمین جب اپنے اوپر گزرے ہوئے حالات پیش کرے گی تو حق و باطل کی وہ کشمکش جو ابتدا سے برپا ہے اور قیامت تک برپا رہے گی، اُس کا پورا نقشہ بھی سب سے سامنے  آجائے گا، اور اس میں سب ہی دیکھ لیں گے کہ حق کے لیے کام کرنے والوں نے کیا کچھ کیا ، اور باطل کی حمایت کرنے والوں نے ان کے مقابلہ میں کیا کیا حرکتیں کیں۔ بعید نہیں کہ ہدایت کی طرف بلانے والوں اور ضلالت پھیلانے والوں کی ساری تقریریں اور گفتگوئیں لوگ اپنے کانوں سے سن لیں۔ دونوں طرف کی تحریروں اور لٹریچر کا پورا ریکارڈ جوں کا توں سب کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے ۔ حق پرستوں پر باطل پرستوں کے ظلم، اور دونوں گروہوں کے درمیان برپا ہونے والے معرکوں کے سارے مناظر میدانِ حشر کے حاضرین اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔