سورة الزلزال حاشیہ نمبر۷ |
|
اِس ارشاد کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے اور یہ بالکل صحیح ہے کہ آدمی کی کوئی ذرّہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہیں ہو گی جو اُس کے نامۂ اعمال میں درج ہونے سے رہ گئی ہو، اُسے وہ بہرحال دیکھ لے گا۔ لیکن اگر دیکھنے سے مراد اُس کی جزا و سزا دیکھنا لیا جائے تو اس کا یہ مطلب لینا با لکل غلط ہے کہ آخرت میں ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی جزا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی بدی کی سزا ہر شخص کو دی جائے گی ، اور کوئی شخص بھی وہاں اپنی کسی نیکی کی جزا اور کسی بدی کی سزا پانے سے نہ بچے گا۔ کیونکہ اوّل تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک ایک بُرے عمل کی سزا ، اور ایک ایک اچھے عمل کی جزا الگ الگ دی جائے گی۔ دوسرے اس کے معی یہ بھی ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا صالح مومن بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے قصور کی سزا پانے سے نہ بچے گا اور کوئی بدترین کافر و ظًالم اور بدکار انسان بھی کسی چھوٹے سےچھوٹے اچھے فعل کا اجر پائے بغیر نہ رہے گا۔ یہ دونوں معنی قرآن اور حدیث کی تصریحات کے بھی خلا ف ہیں ، اور عقل بھی اِسے نہیں مانتی کہ یہ تقاضائے انصاف ہے۔ عقل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیسے سمجھ میں آنے کے قابل ہے کہ آپ کا کوئی خادم نہایت وفادار اور خدمت گزار ہو ، لیکن آپ اس کے کسی چھوٹے سے قصور کو بھی معاف نہ کریں، اور اس کی ایک ایک خدمت کا اجر و انعام دینے کے ساتھ اس کے ایک ایک قصور کو گِن گِن کر ہر ایک کی سزا بھی اُسے دے ڈالیں۔ اِسی طرح یہ بھی عقلًا ناقابلِ فہم ہے کہ آپ کا پروردہ کوئی شخص جس پر آپ کے بے شمار احسانات ہوں ، وہ آپ سے غدّاری اور بے وفائی کرے اور آپ کے احسانات کا جواب ہمیشہ نمک حرامی ہی سے دیتا رہے ، مگر آپ اس کے مجموعی رویّے کو نظر انداز کر کے اس کی ایک ایک غدّاری کی الگ سزا اور اس کی ایک ایک خدمت کی ، خواہ وہ کسی وقت پانی لا کر دے دینے یا پنکھا جھل دینے ہی کی خدمت ہو، الگ جزا دیں۔ اب رہے قرآن و حدیث، تو وہ وضاحت کے ساتھ مومن، منافق، کافر، مومنِ صالح، مومنِ خطاکار، مومنِ ظالم و فاسق، محض کافر، اور کافرِ مفسد و ظالم وغیر ہ مختلف قسم کے لوگوں کی جزا و سزا کا ایک مفصل قانون بیان کرتے ہیں اور یہ جزا و سزا دنیا سے آخرت تک انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے۔ |