اس رکوع کو چھاپیں

سورة العٰدیٰت حاشیہ نمبر۴

 یہ ہے وہ بات جس پر اُن گھوڑوں کی قسم کھائی گئی ہے جو رات کو پھُنکارے مارتے اور چنگاریاں جھاڑتے ہوئے دوڑتے ہیں، پھر صبح سویرے غبار اُڑاتے ہوئے کسی بستی پر جا پڑتے ہیں اور مدافعت کرنے والوں کی جماعت میں گھُس جاتے ہیں۔ تعجب اِس پر ہوتا ہے کہ اکثر مفسرین نے ان گھوڑوں سے مراد غازیوں کے گھوڑے لیے ہیں اور جس مجمع میں ان کے جا گھسنے کا ذکر کیا گیا ہے اُس سے مراد اُن کے نزدیک کفار کا مجمع ہے۔ حالانیہ یہ قَسَم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ  ” انسان اپنے ربّ کا بڑا نا شکرا ہے۔“ اب یہ ظاہر ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ میں غازیوں کے گھوڑوں کی دوڑ دھوپ اور کفار کے کسی مجمع پر اُن کا ٹوٹ پڑنا اِس امر پر کوئی دلالت نہیں کرتا کہ انسان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے ، اور نہ بعد کے یہ فقرے کہ انسان اپنی ناشکری  پر خود گواہ ہے اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے ، اُن لوگوں پر چسپاں ہوتے ہیں کہ جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے نکلتے ہیں۔ اس لیے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اس سورہ کی ابتدائی پانچ آیات میں جو قسمیں کھائی گئی ہیں اُن کا  اشارہ دراصل اُس عام کشت و خون اور غارت گری کی طرف ہے جو عرب میں اُس وقت برپا تھی۔ جاہلیت کے زمانے میں رات ایک بہت خوفناک چیز ہوتی تھی جس میں ہر قبیلے اور بستی کے لوگ یہ خطرہ محسوس کرتے تھے کہ نہ معلوم کونسا دشمن اُن پر چڑھائی  کرنے کے لیے آرہا ہو، اور دن کی روشنی نمودار ہونے پر وہ اطمینان کا سانس لیتے تھے کہ رات خیریت سے گزر گئی۔ وہاں قبیلوں کے درمیان محض انتقامی لڑائیاں ہی نہیں ہوتی تھیں ، بلکہ مختلف قبیلے ایک دوسرے پر اِس غرض کے لیے بھی چھاپے مارتے رہتے تھے کہ ان کی دولت لوٹ لیں، ان کے مال مویشی  ہانک لے جائیں ، اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیں۔ اس ظلم و ستم اور غارت گری کو ، جو زیادہ تر گھوڑوں پر سوار ہو کر ہی کی جاتی تھی، اللہ تعالیٰ اِس امر کی دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے کہ انسان اپنے ربّ کا بڑا نا شکرا ہے۔ یعنی جس طاقت کو وہ جنگ و جدل اور غارت گری  میں استعمال کر رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اِس لیے تو نہیں دی تھی کہ اس سے  یہ کام لیا جائے۔ پس درحقیقت یہ بہت بڑی ناشکری ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے اِن وسائل اور اس کی بخشی ہوئی اِن طاقتوں کو اُس فساد فی الارض میں استعمال کیا جائے جو اللہ کو سب سے زیادہ  ناپسند ہے