اس رکوع کو چھاپیں

سورة العٰدیٰت حاشیہ نمبر۸

یعنی دلوں میں جو ارادے اور نیّتیں ، جو اغراض و مقاصد، جو خیالات و افکار ، اور ظاہری افعال کے پیچھے جو باطنی محرّکات (Motives ) چھُپے ہوئے ہیں وہ سب کھول کر رکھ دیے جائیں گے اور ان کی جانچ پڑتا ل کر کے اچھائی کو الگ اور بُرائی کو الگ چھانٹ دیا جائے گا۔ بالفاظِ دیگر فیصلہ صرف ظاہر ہی کو دیکھ کر نہیں کیا جائے گا کہ انسان نے عملاً کیا کچھ کیا، بلکہ دلوں میں چھُپے ہوئے رازوں کو بھی نکال کر یہ دیکھا جائے گا کہ جو جو کام انسان نے کیے وہ کس نیت سے اور کس غرض سے کیے۔ اس بات پر اگر انسان غور کرے تو وہ یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا  کہ اصلی اور مکمّل انصاف خدا کی عدالت کے سوا اور کہیں نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے لادینی قوانین بھی اصولی حیثیت سے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کے محض ظاہری فعل کی بنا پر اُسے سز ا نہ دی جائے بلکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ اُس نے کس نیت سے وہ فعل کیا ہے۔ لیکن دنیا کی کسی عدالت کے پاس بھی وہ ذرائع نہیں ہیں جن سے وہ نیت کی ٹھیک ٹھیک تحقیق کر سکے۔ یہ صرف اور صرف خدا ہی کر سکتاہے کہ انسان کے ہر ظاہری فعل کے پیچھے جو باطنی محرِّکات کار فرما رہے ہیں ان کی بھی جانچ پڑتا کر ے اور اس کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ وہ کس جزا یا سزا کا مستحق ہے۔ پھر آیت کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ محض اللہ کے اُس علم کی بنا پر نہیں ہو گا جو وہ دلوں کے ارادوں اور نیّتوں کے بارے میں پہلے ہی سے رکھتا ہے، بلکہ قیامت کے روز اِن رازوں کو کھول کر علانیہ سامنے رکھ دیا جائے گا  اور کھلی عدالت میں جانچ پڑتال کر کے یہ دکھا دیا جائے گا کہ ان میں خیر کیا تھی اور شر کیا تھا۔ اِسی لیے حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ تحصیل کے معنی کسی چیز کو نکال کر باہر لانے کے بھی ہیں، مثلاً چھلکا اتار کر مغز نکالنا، اور مختلف قسم کی چیزوں کو چھانٹ کر ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ لہٰذا دلوں میں چھُپے ہوئے اسرار کی تحصیل میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں۔ اُن کو کھول کر ظاہر کر دینا بھی ، اور ان کو چھانٹ کر بُرائی  اور بھلائی کو الگ  کر دینا بھی۔ یہی مضمون سُورۂ طارق میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ یَوْمَ تُبْلَی السَّرَآ ئِرُ۔” جس روز پوشیدہ  اَسرار کی جانچ پڑتا ہوگی۔“(آیت۹)۔