اس رکوع کو چھاپیں

سورة القارعة حاشیہ نمبر۴

اصل میں لفظ مَوَازِیْن استعمال ہوا ہے جو موزون کی جمع بھی ہو سکتا ہے اور میزان کی جمع بھی۔ اگر اس کو موزون کی جمع قرار دیا جائے تو موازین  سے مراد وہ اعمال ہوں گے جن کا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی وزن ہو، جو اس کے ہاں کسی قدر کے مستحق ہوں۔ اور اگر اسے میزان کی جمع قرار دیا جائے تو موازین سے مراد ترازو کے پلڑے ہوں گے۔ پہلی صورت میں مَوازین کے بھاری اور ہلکے ہونے کا مطلب نیک اعمال کا برے اعمال کے مقابلے میں بھاری  یا ہلکا ہونا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صرف نیکیاں ہی وزنی اور قابلِ قدر ہیں۔ دوسری صورت میں موازین کے بھاری ہونے کا مطلب  اللہ جلّ شانہ، کی میزانِ عدل میں نیکیوں کے پلڑے کا برائیوں کی بہ نسبت زیادہ بھاری ہونا ہے، اور اُن کا ہلکا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں  کے پلڑے کی بہ نسبت ہلکا ہو۔  اس کے علاوہ عربی زبان کے محاورے میں میزان کا لفظ وزن کے معنی مییں بھی استعمال ہوتا ہے ، اور اِس معنی کے لحاظ سے وزن کے بھاری اور ہلکا ہونے سے مراد  بھلائیوں کا وزن بھاری یا ہلکا ہونا ہے۔ بہر حال موازین کو خواہ موزون کے معنی میں لیا جائے، یا میزان کے معنی میں، یا وزن کے معنی میں، مدّعا ایک ہی رہتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فیصلہ اِس بنیا د پر ہو گا کہ آدمی اعمال  کی جو پونجی لے کر آیا ہے وہ وزنی ہے ، یا بے وزن، یا اس کی بھلائیوں کا وزن اُس کی برائیوں کے وزن سے زیادہ ہے یا کم۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ جن کو نگاہ میں رکھا جائے تو اس کا مطلب پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ سورۂ اَعراف میں ہے ”اور وزن اُس روز حق ہو گا، پھر جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی  فلاح پائیں گے، اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے  میں مبتلا کرنے والے ہوں گے “(آیات ۹-۸)۔ سورۂ کہف میں ارشاد ہوا” اے نبی اِن لوگوں سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و  نا مراد  لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ کی آیا ت کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے ان کے سارے  اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے“(آیات ۱۰۵-۱۰۴)۔ سورۂ انبیاء میں فرمایا”قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں“(آیت۴۷)۔ اِن آیات سے معلوم ہوا کہ کفر اور حق سے انکار بجائے خود اتنی بُرائی ہے کہ وہ برائیوں کے پلڑے کو لازمًا جھُکادے گی اور کافر کی کوئی نیکی ایسی  نہ ہو گی کہ بھلائیوں کے پلڑے میں اُس کا کوئی وزن ہو جس سے اُس کی نیکی کا پلڑا جُھک سکے۔ البتہ مومن کے پلڑے میں ایمان کا وزن بھی ہوگا اور اس کے ساتھ اُن نیکیوں کا وزن بھی جو اس نے دنیا میں  کیں ۔ دوسری طرف اُس کی جو بَدی بھی ہو گی وہ بدی کے پلڑے میں رکھ دی جائے گی۔ پھر دیکھا جائے گا کہ آیا نیکی کا پلڑا جُھکا ہوا ہے یا بدی کا۔