اس رکوع کو چھاپیں

سورة التکاثر حاشیہ نمبر۱

اصل میں اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ فرمایا گیا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ ایک پوری عبارت میں بمشکل اس کو ادا کیا جا سکتا ہے۔
اَلْھٰکُمُ    لَہْو سے ہے جس کے اصل معنی غفلت کے ہیں ، لیکن عربی زبان میں یہ لفظ ہر اُس شغل کے لیے بولا جاتا ہے جس سے آدمی کی دلچسپی اتنی بڑھ جائے کہ وہ اس میں مُنہمِک ہو کر دوسری اہم ترین چیزوں سے غافل ہو جائے ۔ اِس مادّے سے جب اَلْھَا کُمْ کا لفظ بولا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کسی لَہْو نے تم کو اپنے اندر ایسا مشغول کر لیا ہے کہ تمہیں کسی اور چیز کا ، جو اُس سے اہم تر ہے، ہوش باقی نہیں رہا ہے۔ اُسی کی دُھن تم پر سوار ہے۔ اُسی کی فکر میں تم لگے ہوئے ہو۔ اور اِس اِنہماک نے تم کو بالکل غافل کر دیا ہے۔
تَکاثُر کثرت سے ہے ، اس کے تین معنی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی زیادہ سے زیادہ کثرت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ لوگ کثرت کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کریں ۔ تیسرے یہ کہ لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں اِس بات پر فخر جتائیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ کثرت حاصل ہے۔

پس اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ کے معنی ہوئے کہ تکاثُر نے تمہیں اپنے اندر ایسا مشغول کر لیا ہے کہ اُس کی دُھن  نے تمہیں اُس سے اہم تر چیزوں سے غافل کر دیا ہے۔ اس فقرے میں یہ تصریح نہیں کی گئی ہے کہ تکاثُر میں کس چیز کی کثرت اور اَلْھٰکُمْ میں کس چیز سے غافل ہو جانا مراد ہے، اور اَلْھٰکُمْ (تم کو غافل کر دیا ہے) کے مُخاطَب کون لوگ ہیں۔ اس  عدمِ تصریح کی وجہ سے اِن الفاظ کا اطلاق اپنے وسیع تر ین مفہوم پر ہو جاتا ہے۔ تکاثُر کے معنی محدود نہیں  رہتے  بلکہ دنیا کے تمام فوائد و منافع، سامانِ عیش، اسبابِ لذّت، اور وسائل ِ قوت و اقتدار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعی و جہد کرنا ، ان کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ، اور ایک دوسرے  کے مقابلے میں ان کی کثرت پر فخر جتانا اُس کے مفہوم میں شامل ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح اَلْھٰکُمْ کے مخاطب بھی محدود نہیں  رہتے بلکہ  ہر زمانے کے لوگ اپنی انفرادی  حیثت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی اُس کے مُخاطَب ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو جاتا ہے کہ زیاد ہ سے زیادہ دنیا حاصل کرنے ، اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے ، اور دوسروں کے مقابلے میں اُس پر فخر جتانے کی دُھن افراد پر بھی سوار ہے اور اقوام پر بھی۔ اِسی طرح اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُر میں چونکہ اس امر کی صراحت نہیں کی گئی کہ تکاثُر نے لوگوں کو اپنے اندر منہمک کر کے کس چیز  سے غافل کر دیا ہے ،ا س لیے اُس کے مفہوم میں بھی بڑی وسعت پیدا ہو گئی ہے ۔ اس کے معنی  یہ ہیں کہ لوگوں کو اِس تکاثُر کی دُھن نے ہر اُس چیز سے غافل کر دیا ہے  جو اس کی بہ نسبت اہم تر ہے۔ وہ خدا سے غافل ہو گئے ہیں، عاقبت سے غافل ہو گئے ہیں۔ اخلاقی حدود اور اخلاقی ذمّہ داریوں سے غافل  ہوگئے ہیں۔ حق داروں کے حقوق اور ان کی ادائیگی  کے معاملہ میں اپنے فرائض سے غافل ہو گئے ہیں۔ انہیں معیارِ زندگی بلند کرنے کی فکر ہے، اِس بات کی کوئی فکر نہیں کہ معیارِ  آدمیت کس قدر گِر رہا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ دولت چاہیے، اِس بات کی کوئی پروا نہیں  کہ وہ کس ذریعہ  سے حاصل ہوتی ہے۔ اُنہیں عیش و عشرت اور جسمانی لذّتوں کے سامان زیادہ سے زیادہ مطلوب ہیں، اِس ہوس رانی میں غرق ہو کر وہ اِس بات سے بالکل غافل ہوگئے ہیں کہ اِس روش کا انجام کیا ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ طاقت، زیادہ سے زیادہ فوجیں، زیادہ سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے کی فکر ہے ، اور اس معاملہ میں ان کے درمیان ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ  جاری ہے، اِ س بات کی فکر اُنہیں نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی زمین کو ظلم سے بھر دینے اور انسانیت کو تباہ  و برباد کر دینے کا سروسامان ہے ۔ غرض تکاثُر کی بے شمار صورتیں ہیں جنہوں نے اشخاص اور اقوام   سب کو اپنے اندر ایسا مشغول کر  رکھا ہے کہ اُنہیں دنیا اور اس کے فائدوں اور لذّتوں سے بالاتر کسی چیز کا ہوش نہیں رہا ہے۔