اس رکوع کو چھاپیں

سورة التکاثر حاشیہ نمبر۴

اس فقرے میں  ”پھر“ کا لفظ اس معنی میں نہیں ہے کہ دوزخ میں ڈالے جانے کے بعد جواب طلبی کی جائے گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر یہ خبر بھی ہم تمہیں دیے دیتے ہیں کہ تم سے اِن نعمتوں کے بارے میں سوا ل کیا جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سوال عدالتِ الہٰی میں حساب لینے کے وقت ہو گا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں بندوں کو دی ہیں ان کے بارے میں جواب دہی مومن و کافر سب ہی کو کرنی ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ جن لوگوں نے کُفر انِ نعمت نہیں کیا اور شکر گزار بن کر رہے  وہ اس محازبہ میں کامیاب رہیں گے ، اور جن لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کا حق ادا نہیں کیا اور اپنے قول یا عمل سے ، یا دونوں سے ان کی ناشکری کی وہ اس میں ناکام ہوں گے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ کو ترو تازہ کھجور یں کھلائیں اور ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا” یہ اُن نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا۔“(مُسند احمد، نَسائی، ابن جَرِیر، ابن المُنذیر، ابن مَرْدُوْیَہ، عبد بن حُمَید، بَیْہَقِی فی الشعب)۔
حضرت ابو ہریرہ  کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر سے کہا کہ چلو ابو الہَیشَم بن الَّیہان انصاری کے ہاں چلیں۔ چنانچہ ان کو لے کر آپ  ابن التیہان کے نخلستان میں تشریف لے گئے۔ انہوں نے لا کر کھجوروں کا ایک خوشہ رکھ دیا۔ حضور ؐ نے فرمایا تم خود کیوں نہ کھجوریں توڑ لائے؟ انہوں نے عرض کیا، میں چاہتا تھا کہ آپ حضرات خود چھانٹ چھانٹ کر کھجوریں تناول فرمائیں۔ چنانچہ انہوں نے کھجوریں کھائیں اور ٹھنڈا پانی پیا۔ فارغ ہونے کے بعد حضور ؐ نے فرمایا”اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں تمہیں قیامت کے روز جواب دہی کر نی ہوگی، یہ ٹھنڈا  سایہ، یہ ٹھنڈی کھجوریں، یہ ٹھنڈا پانی“(اِس قصے کو مختلف طریقوں سے مسلم ،ابن ماجہ، ابو داؤد، تِرْمذِی، نَسائی، ابن جریر اور ابو یَعلیٰ وغیرہم نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے جن میں سے بعض میں اُن انصاری بزرگ کا نام لیا گیا ہے اور بعض میں صرف انصار میں سے ایک شخص کہا گیا ہے۔ اس قصّے کو مختلف طریقوں سے  متعدد تفصیلات کے ساتھ ابن ابی حاتم نے حضرت عمر سے، اور امام احمد نے ابو عسیب ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سے نقل کیا ہے۔ ابن حِبّان اور ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قریب قریب اسی طرح کا واقعہ حضرت ابو ایوب انصاری کے ہاں پیش آیا تھا)۔

اِن احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سوال صرف کفّار ہی سے نہیں ، مومنین صالحین سے بھی ہو گا۔ رہیں خدا کی وہ نعمتیں جو اُس نے انسان کو عطا کی ہیں ، تو وہ لامحدود ہیں، اُن کا کوئی شمار نہیں کیا جا سکتا، بلکہ بہت سی نعمتیں تو ایسی ہیں کہ انسان کو اُن کی خبر بھی نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وَاِنْ تَعُدُّوْ ا نَعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْ ھَا،”اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گِنو تو تم اُن کا پورا شمار نہیں کر سکتے“(ابراہیم ۳۴)۔ اِن نعمتوں میں سے بے حد و حساب نعمتیں تو  وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے براہِ رااست انسان کو عطا کی ہیں، اور  بکثرت نعمتیں وہ ہیں جو  انسان  کو اُس کے اپنے کسب کے ذریعہ سے دی جاتی ہیں ۔ انسان کے کسب سے حاصل ہونے والی نعمتوں کے متعلق اُس کو جواب دہی کرنی پڑے گی کہ اس نے ان کو کن طریقوں سے حاصل کیا اور کن راستوں پر خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی براہِ راست عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں اُسے حساب دینا ہو گا کہ اُن کو اُس نے کس طرح استعمال کیا ۔ اور مجموعی طور پر تمام نعمتوں کے متعلق اُس کو بتانا پڑے گا کہ آیا اُس نے اِس امر کا اعتراف کیا تھا کہ یہ نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور ان پر دل ، زبان اور عمل سے اُس کا شکر ادا کیا تھا؟ یا یہ سمجھا تھا کہ  یہ سب کچھ اُسے اتفاقًا  مل گیا ہے؟  یا یہ خیال کیا تھا کہ بہت سے خدا ان کے عطا کرنے والے ہیں؟ یا یہ عقیدہ رکھا تھا کہ یہ ہیں تو خدا ہی کی نعمتیں مگر ان کے عطا کرنے میں بہت سی دوسری ہستیوں کا بھی دخل ہے اور اِس بنا پر اُنہیں معبود ٹھیرا لیا تھا اور اُنہی کے شکریے  ادا کیے تھے؟