سورة العصر حاشیہ نمبر۱ |
|
اِس سُورۃ میں زمانے کی قسم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ اِنسان بڑے خَسارے میں ہے ، اور اِس خسارے سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر چار صفتیں پائی جاتی ہیں: (۱) ایمان۔ (۲) عمل ِ صالح۔ (۳) ایکدوسرے کو حق کی نصیحت کرنا۔ (۴) ایکدوسرے کو صبر کی تلقین کرنا۔ اب اس بات ایک ایک جُز کو الگ لے کر اِس پر غور کرنا چاہیے تاکہ اس ارشاد کا پُورا مطلب واضح ہو جائے۔ اِنَّمَا الْمُؤْ مِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا بِا للہِ وَرَسُوْلِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا۔ (الحجرات۔ ۱۵) اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَا مُوْا۔ (حٰم السجدۃ۔۳۰) اِنَّمَا الْمُؤْ مِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ۔ ا(الانفال۔ ۲) وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ (البقرۃ۔۱۶۵) فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ (النسآء۔۶۵) اِن سے بھی زیادہ اِس آیت میں زبانی اقرارِ ایمان اور حقیقی ایمان کا فرق ظاہر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اصل مطلوب حقیقی ایمان ہے نہ کہ زبانی اقرار: اب رہا یہ سوال کہ ایمان لانے سے کن چیزوں پر ایمان لانا مراد ہے، تو قرآن مجید میں پوری طرح اِس بات کو بھی کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔ اِس سے مراد اوّؔ لًا ، اللہ کو ماننا ہے۔ محض اُس کے وجود کو ماننا نہیں بلکہ اُسے اِس حیثیت سے ماننا ہے کہ وہی ایک خدا ہے۔ خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ۔ وہی اِس کا مستحق ہے کہ انسان اُ س کی عبادت، بندگی اور اطاعت بجا لائے۔ وہی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والا ہے۔ بندے کو اسی سے دعا مانگنی چاہیے اور اسی پر توکُّل کرنا چاہیے۔ وہی حکم دینے اور منع کرنے والا ہے۔ بندے کا فرض ہے کہ اُس کے حکم کی اطاعت کرے اور جس چیز سے اُس نے منع فرمایا ہے اُس سے رُک جائے ۔ وہ سب کچھ دیکھنے والا اور سننے والا ہے۔ اُس سے انسان کا کوئی فعل تو درکنار، وہ مقصد اور نیّت بھی مخفی نہیں ہے جس کے ساتھ اُس نے کوئی فعل کیا ہے۔ ثاؔنیاً ، رسول کو ماننا، اِس حیثیت سے کہ وہ اللہ کا مامور کیا ہوا ھادی و رہنما ہے ، اور جس چیز کی تعلیم بھی اُس نے دی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے، بر حق ہے اور واجب التسلیم ہے۔ اِسی ایمان بالر سالت میں ملائکہ، انبیاء اور کُتُب الہٰیّہ پر، اور خود قرآن پر بھی ایمان لانا شامل ہے ، کیونکہ یہ اُن تعلیمات میں سے ہے جو اللہ کے رسول نے دی ہیں۔ ثاؔلثًا، آخرت کو ماننا، اِس حیثیت سے کہ انسان کی موجودہ زندگی پہلی اور آخری زندگی نہیں ہے ، بلکہ مرنے کے بعدانسان کو دوبارہ زندہ ہو کر اُٹھنا ہے، اپنے اُن اعمال کا جو اُس نے دنیا کی اِس زندگی میں کیے ہیں خدا کو حساب دینا ہے، اور اِس مُحاسبہ میں جو لوگ نیک قرار پائیں انہیں جزا ، اور جو بد قرار پائیں اُن کو سزا ملنی ہے۔ یہ ایمان اخلاق اور سیرت و کردار کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر دیتا ہے جس پر ایک پاکیزہ زندگی کی عمارت قائم ہو سکتی ہے۔ ورنہ جہاں سرے سے یہ ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی خوشنما کیوں نہ ہوں، اُس کا حال ایک بے لنگر کے جہاز کا سا ہوتا ہے جو موجوں کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں قرار نہیں پکڑ سکتا۔ |