اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفیل حاشیہ نمبر۱

خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر اصل مخاطب نسلِ قریش ، بلکہ عرب کے عام لوگ ہیں جو اس سارے قصے سے خوب واقف تھے۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اَلَمْ تَرَ (کیا تم نے نہیں دیکھا) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں  بلکہ عام لوگوں کو مخاطب کر نا ہے۔ (مثال کے طور پر آیاتِ ذیل ملاحظہ ہوں: ابراہیم، آیت۱۹۔ الحج۶۵-۱۸۔ النور ۴۳۔ لقمان ۳۱-۲۹۔ فاطر ۲۷۔ الزمر ۲۱)۔ پھر دیکھنے کا لفظ اس مقام پر اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ مکّہ اور اطرافِ مکّہ اور عرب کے ایک وسیع علاقے میں مکّہ سے یمن تک ایسے بہت سے لوگ اُس وقت زندہ موجود تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اصحابُ الْفیل کی تباہی کا واقعہ دیکھا تھا ۔ کیونکہ اس واقعہ کو گزرے ہوئے چالیس پینتالیس سال سے زیادہ کا زمانہ نہیں ہوا تھا، اور سارا عرب ہی اس کی ایسی متواتر خبریں دیکھنے والوں سے سُن چکا تھا کہ یہ واقعہ لوگوں کے لیے آنکھوں دیکھے واقعہ کی طرح یقینی تھا۔